شامی شہر بانیاس سے خفیہ پولیس کی واپسی
14 اپریل 2011یہ اقدام عوامی احتجاج اور وہاں پائی جانے والی بے چینی ختم کرنے کی کوششوں کا حصہ ہے۔ شامی خفیہ پولیس کے اہلکاروں پر الزام ہے کہ انہوں نے بڑے پیمانے پر عوام کا استحصال کیا ہے۔ تیونس اور مصر کے انقلابات سے متاثرہ نوجوانوں نے اس شہر میں شامی صدر بشار الاسد کے خلاف عوامی سطح پر مظاہروں کا سلسلہ جاری رکھا ہوا ہے۔ یہ شہر تب سے ہی سکیورٹی فورسز کے حصار میں ہے۔
انسانی حقوق کی تنظیموں کے مطابق شام میں گزشتہ چند ہفتوں کے دوران ہونے والی بد امنی میں دو سو کے قریب ہلاک ہوچکے ہیں۔ بہت سے لاپتہ بھی ہیں۔ تازہ ترین پیشرفت کے مطابق ملکی فوج نے بانیاس کے باسیوں کو یقین دہانی کرائی ہے کہ فوج شہر میں داخل ہوکر کوئی مسلح کارروائی نہیں کرے گی۔
گزشتہ روز ملک کے دوسرے سب سے بڑے شہر الیپو، جسے عربی میں حلب کہتے ہیں، سینکڑوں طلباء نے صدر بشار الاسد کے خلاف مظاہرہ کیا۔ ان مظاہروں کی ابتدا ٹھیک ایک ماہ قبل درعا نامی شہر سے ہوئی تھی جہاں اب ہر ہفتے نماز جمعہ کے بعد احتجاجی مظاہروں کی روایت سی بن گئی ہے۔
درعا نامی شہر میں پولیس اہلکاروں نے درجنوں ایسے بچوں کو بھی حراست میں لے لیا تھا جو جمہوریت کی حمایت میں دیواروں پر نعرے لکھ رہے تھے۔
شام کی سیاسی صورتحال سمجھنے میں یہ نکتہ اہم ہے کہ وہاں کی اکثریتی آبادی سُنی عقیدے کی پیروکار ہے جبکہ کئی دہائیوں سے وہاں شیعہ حکمران قیادت کر رہے ہیں۔ 1946ء میں فرانس سے آزادی حاصل کرنے کے بعد پانچ دہائیوں سے اس عرب ریاست میں بعث پارٹی کی حکومت ہے۔ 1963ء سے ملک میں ایمرجنسی نافذ ہے جس کے تحت سکیورٹی فورسز کو لامحدود اختیارات حاصل ہیں۔ بشار الاسد سے پہلے ان کے والد حافظ الاسد 2000ء میں اپنے انتقال تک 30 سال تک شام کے صدر رہے تھے۔
امریکہ، برطانیہ اور فرانس کی جانب سے شامی حکومت کو خبردار کیا گیا ہے کہ وہ مظاہرین کے خلاف طاقت کے استعمال سے باز رہے۔ صدر بشار الاسد پر الزام ہے کہ انہوں نے مظاہروں کے سلسلے کے شروع ہوتے ہی ریاستی طاقت کا بے دریغ استعمال کرکے اپنے مخالفین کی آواز کو دبانے کی کوشش کر رہے ہیں۔
رپورٹ: شادی خان سیف
ادارت: مقبول ملک