1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

شرمین عبید کو قانونی کارروائی کا سامنا

Kishwar Mustafa23 مئی 2012

پاکستان میں تیزاب کے حملوں کا شکار خواتین کی حالت زار پر بننے والی ڈاکومنٹری کو آسکر ایوارڈ ملا تھا مگر اس میں پیش کی جانے والی خواتین کو اب مختلف مسائل کا سامنا ہے۔

https://p.dw.com/p/150tm
تصویر: Reuters

شرمین عبید چنوئے کی اس فلم نے آسکر انعام جیت کر پاکستان  میں ایک نئی تاریخ رقم کی ہے۔ تاہم اگر یہ فلم پاکستان میں دکھائی گئی تو اسے سخت انتقام اور مخالفت کا سامنا کرنا پڑے گا۔

شرمین عبید کی 40 منٹ دورانیے کی یہ دستاویزی فلم ذکیہ اور رخسانہ نامی دو خواتین کی زندگی کی کہانیوں پر مشتمل ہے۔ اس فلم میں دکھایا گیا ہے کہ ان دونوں کو اپنے شوہروں کی طرف سے تیزاب کے حملوں کا شکار بننے کے بعد اپنی تباہ شدہ زندگیوں کو دوبارہ بنانے کے لیے کس طرح کی جدوجہد کرنا پڑی۔ ان خواتین کے مسخ شدہ چہروں کو دوبارہ نارمل بنانے کے لیے ایک پاکستانی نژاد برطانوی سرجن محمد جاوید نے پلاسٹک سرجری کی تھی۔

Sharmeen Obaid Chinoy Filmemacherin Pakistan
شرمین عبید تنقید کی زد میںتصویر: sharmeenobaidfilms.com

جب تينتيس سالہ فلم ساز شرمین عبید چنوئے کی فلم ’سيونگ فيس‘ کو امريکا کے شہر لاس اینجلس ميں اس سال چھبيس فروری کو منعقدہ تقريب ميں آسکر ايوارڈ سے نوازا گيا تھا، تو خواتین پر تیزاب کے حملوں کے خلاف مہم چلانے والوں نے اس پر بڑی مسرت کا اظہار کیا تھا۔

شرمین عبید کی اس فلم کی تیاری میں اُن کے ساتھ ’دی ایسڈ سروائیورز فاؤنڈیشن آف پاکستان ((ASF‘ نے تعاون کیا تھا۔ تاہم اب تیزاب کے حملے میں بچ جانے والی چند خواتین کو پاکستان کے قدامت پسند حلقوں کی طرف سے دوبارہ حملوں کے خطرات کا سامنا ہے اور وہ فلم ساز کے خلاف قانونی ایکشن لے رہی ہیں۔ شرمین عبید چنوئے کی فلم ’سيونگ فيس‘ میں ایک مختصر سا کردار ادا کرنے والی 22 سالہ نائیلہ فرحت کہتی ہیں، ’ہمیں اس امر کا ذرا بھی اندازہ نہیں تھا کہ یہ فلم اس قدر مقبول ہوگی اور اسے آسکر ایواڈ سے نوازا جائے گا۔ یہ بالکل غلط ہے۔ ہم انہیں اس فلم کو پاکستان میں دکھانے کی کوئی اجازت نہیں دیں گے۔‘ وہ 13 برس کی تھی جب اُس شخص نے اُس کے چہرے پر تیزاب پھینکا تھا جس سے اُس نے شادی کرنے سے انکار کر دیا تھا۔ یہ واقعہ ہے یوم آزادی کا جس کی تقریب میں شرکت کرنے کے بعد وہ گھر جا رہی تھی کہ راستے میں اُس کے چہرے پر تیزاب پھینک دیا گیا۔ اُس کے نتیجے میں نائلہ اپنی ایک آنکھ سے محروم ہو گئی۔

Opfer von Säureattentaten in Pakistan
تیزاب کے حملے کی شکار خواتین کو اپنے مسخ شدہ چہرے بھی چھپانا پڑتے ہیں۔تصویر: AP

حملہ آور کو 12 سال قید کی سزا سنائی گئی تھی۔ ایک طویل اور تکلیف دہ عرصے کے بعد وہ صحت یاب ہوئی اور اب وہ ایک نرس کی حیثیت سے ٹریننگ کر رہی ہے۔ فرحت کا کہنا ہے، ’یہ میری فیملی کی بے عزتی ہے اور وہ اس کا ایک بڑا مسئلہ بنائیں گے۔ پاکستان میں ایسا ہی ہوتا ہے۔ جب بھی وہ فلم میں کسی عورت کو دیکھتے ہیں تو اُس کے بارے میں چہ مگوئیاں شروع ہو جاتی ہیں۔ ہمیں اس بات کا ڈر ہے کہ کہیں ہم پر پھر اس قسم کا حملہ نہ ہو جائے۔ شاید ہم اب مزید خطرے سے دو چار ہو گئے ہیں۔‘

دریں اثناء ASF کی طرف سے تیزاب کے حملوں کا شکار خواتین کی ترجمانی کے لیے مقرر کردہ وکیل نوید مظفر خان نے کہا ہے کہ عبید چنوئے اور ان کے ساتھی پروڈیوسر  Daniel Junge کو لیگل نوٹس جاری کر دیے گئے ہیں۔ انہوں نے مزید بتایا کہ تیزاب کے حملے کی متاثرہ اور اس فلم میں کام کرنے والی خواتین نے اس امر پر اتفاق نہیں کیا تھا کہ اس فلم کو پاکستان میں عوام کے لیے ریلیز کیا جائے گا۔ مزید یہ کہ ایسے کسی بھی معاہدے میں اُن تمام خواتین کو شامل کیا جانا چاہیے تھا جنہوں نے اس فلم میں کردار ادا کیا ہو، چاہے وہ کتنا ہی مختصر اور قلیل وقت کا کیوں نہ ہو۔

وکیل نوید مظفر خان نے کہا کہ  فلم ’سيونگ فيس‘ کے پروڈیوسرز کو سات دن کی مہلت دی گئی ہے۔ اس میں انہوں نے فیصلہ کرنا ہے کہ یہ فلم پاکستان میں نہیں دکھائی جائے گی۔ بصورت دیگر وہ اس معاملے کو عدالت میں لے جائیں گے۔

Acid Survivor Foundation
پاکستان میں ایسڈ سروائورز فاؤنڈیشن متاثرہ خواتین کی مدد کے لیے سرگرمتصویر: AP

اُدھر عبید چنوئے کا اصرار ہے کہ ان کی فلم میں کام کرنے والی تمام خواتین نے ایک قانونی دستاویز پر دستخط کرتے ہوئے اس بات کی اجازت دی تھی کہ یہ فلم پاکستان سمیت دنیا میں کہیں بھی دکھائی جا سکتی ہے۔ انہوں نے AFP کو بتایا کہ اُن کی فلم کے اُس ورژن سے رخسانہ کو ایڈٹ کر دیا گیا تھا جسے پاکستان میں دکھایا جانا تھا۔ ایسا رخسانہ کے تحفظات کا احترام کرتے ہوئے کیا گیا تھا۔ عبید چنوئے نے کہا ہے کہ کورٹ کی طرف سے احکامات جاری ہونے پر وہ ان قانونی شکایات کا جواب دیں گی۔

اُدھر تیزاب کے حملوں کا شکار خواتین اس بارے میں اپنے مؤقف پر ڈٹی ہوئی ہیں کہ یہ فلم پاکستان میں نہ دکھائی جائے کیونکہ اس سے ان کی زندگیاں مزید تباہ ہو جائیں گی اور وہ اپنے گاؤں میں مزید زندگی نہیں گزار پائیں گی۔

km/hk/ AFP

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید

مزید آرٹیکل دیکھائیں