پہلی پاکستانی خاتون، آسکر ایوارڈ کے لیے نامزد
27 جنوری 2012ڈوئچے ویلے سے خصوصی گفتگو کرتے ہوئے شرمین عبید چنوئے کا کہنا تھا کہ آسکر ایوارڈ کے لیے ان کی فلم کا نامزد ہونا ان کے لیے اعزاز کی بات ہے۔ اس سے جہاں ان کی حوصلہ افزائی ہوئی ہے وہاں ان کی اس رائے کو بھی تقویت ملی ہے کہ اچھا کام جو بھی کرے گا، اسے پسند کیا جائے گا اور اسے عالمی سطح پر بھی ضرور سراہا جائے گا۔
شرمین کے مطابق وہ اب تک دنیا کے دس ملکوں میں سولہ فلمیں بنا چکی ہیں۔ ان کے بقول اب پاکستان میں بھی دستاویزی فلموں کا رجحان شروع ہوتا دکھائی دے رہا ہے۔ شرمین کا کہنا ہے کہ وہ ایک فلم آٹھ سے دس مہینوں میں تیار کرتی ہیں۔ مسلسل محنت، عمدہ کہانی اور کہانی بیان کرنے کی صلاحیت رکھنے والے درست کرداروں کا انتخاب ان کےنزدیک فلم کی کامیابی کے لیے بہت ضروری ہے۔
ایک سوال کے جواب میں ان کا کہنا تھا کہ پاکستان فلم انڈسٹری ضرور بحال ہو گی کیونکہ یہاں بہت سے نوجوان آرٹسٹ، ڈائریکٹر اور دیگر ہنرمند افراد بڑی محنت سے کام کر رہے ہیں اور یہ سب لوگ ان موضوعات پر بھی بات کر رہے ہیں، جن پر ماضی میں بات نہیں کی جاتی تھی۔ انہوں نے اس ضمن میں مثال دیتے ہوئے مہرین جبار، بلال لاشاری، حسن زیدی اور ثاقب ملک سمیت کئی دیگر نئے فنکاروں کے کام کو بھی سراہا۔ان کی رائے میں پاکستان میں ٹیلنٹ تو ہے لیکن وسائل بہت کم ہیں۔
شرمین نے ایک سوال کے جواب میں بتایا آسکر کے لیے نامزد ہونے والی ان کی نئی فلم "سیونگ فیس"میں دو ایسی خواتین کی کہانی بیان کی گئی ہے، جن کے چہروں کو تیزاب پھینک کر جلا دیا گیا تھا۔ یہ ان پڑھ خواتین اپنے مسائل کے حل کے لیے جدوجہد کرتی ہیں، پڑھی لکھی وکیل خواتین سے مدد لیتی ہیں، ارکان پارلیمنٹ سے رابطے کرتی ہیں اور بلآخراس جرم کے سدباب کے لیے قانون سازی کروانے میں کامیاب رہتی ہیں۔ ایک پاکستانی نژاد برطانوی سرجن ان کے چہروں کی پلاسٹک سرجری کے لیے ان کی مدد کرتا ہے۔ شرمین کے بقول اس فلم کا بنیادی پیغام یہ ہے کہ پاکستانی لوگ اگر چاہیں تو اپنی مدد آپ کے تحت جدوجہد کرکے اپنے مسائل خود حل کر سکتے ہیں۔
اپنی فلموں کے لیےغیر مقبول موضوعات کے انتخاب کے حوالے سے پوچھے جانے والے ایک سوال کے جواب میں شرمین کا کہنا تھا، "ہمیں اگر اپنے معاشرے کو بہتر بنانا ہے، تو ان ایشوز پر بات ضرور کرنا ہوگی، جو ہمارے معاشرے کو خراب کر رہے ہیں"۔ یاد رہے شرمین اس سے پہلے طالبان بچوں کے حوالے سے بھی ایک فلم بنا چکی ہیں۔
پاکستان میں فنون لطیفہ پرگہری نظر رکھنے والے ایک تجزیہ نگار پیرزادہ سلمان نے ڈوئچے ویلے کو بتایا کہ شرمین کی زیادہ تر فلمیں ان سماجی مسائل سے جڑی ہوئی ہیں، جن کی وجہ سے پاکستان عالمی سطح پر فوکس میں آیا ہواہے۔ ان کے بقول شرمین کی فلم کی آسکر ایوارڈ کے لیے نامزدگی پاکستان کے لیے ایک بہت ہی خوش آئند بات ہے۔ ان کے بقول فلم ایک طاقت ور ذریعہ ابلاغ ہے اور پاکستان میں اس ضمن میں بعض اچھی کوششیں بھی ہو رہی ہیں۔ لیکن ان کی رائے میں پاکستان کی روایتی فلم انڈسٹری کی بحال کا ابھی کوئی امکان نظر نہیں آ رہا ہے۔
پاکستان فلم انڈسٹری کی ممتاز فنکارہ بہاربیگم نے بتایا ان کے لیے یہ پیش رفت بڑی خوشی کی بات ہے، ایسے نوجوانوں کی تحسین اور حوصلہ افزائی ہونی چاہیے اور حکومت کو بھی فلم انڈسٹری کی بحالی کے لیے اقدامات کرنے چاہیں۔
رپورٹ: تنویر شہزاد، لاہور
ادارت: عاطف توقیر