شنگھائی تعاون تنظیم کے سربراہی اجلاس سے شہباز شریف کا خطاب
16 اکتوبر 2024پاکستانی وزیر اعظم شہباز شریف اسلام آباد کے جناح کنونشن سنٹر میں شنگھائی تعاون تنظیم (ایس سی او) کی کونسل آف دی ہیڈز آف گورنمنٹ کے 23ویں سربراہی اجلاس کی صدارت کر رہے ہیں۔
اس موقع پر انہوں نے اپنے صدارتی خطاب میں کہا کہ "ہم ایک ساتھ مل کر سماجی واقتصادی ترقی کو آگے بڑھانے، علاقائی امن اور استحکام کو مضبوط کرنے اور اپنے شہریوں کے معیار زندگی کو بہتر بنانے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔"
پاکستان: شنگھائی تعاون تنظیم کے سربراہی اجلاس کا آغاز
انہوں نے ایس سی او کے رہنماؤں پر زور دیا کہ وہ شنگھائی تعاون تنظیم کے اجلاس کو "خیالات کے تبادلے، بہترین طریقوں کا اشتراک کرنے اور ایسے ٹھوس ایکشن پلان بنانے کے لیے استعمال کریں جس سے ہماری معیشتوں اور معاشروں کو فائدہ پہنچ سکے۔"
وزیر اعظم شہباز شریف نے شنگھائی تعاون تنظیم (ایس سی او) کو "کثیرالجہتی کی روشنی" قرار دیا۔
شنگھائی تعاون تنظیم میں چین، بھارت، روس، پاکستان، ایران، قازقستان، کرغزستان، تاجکستان، ازبکستان اور بیلاروس شامل ہیں، جبکہ مبصرین یا "ڈائیلاگ پارٹنرز" کے طور پر 16 دیگر ممالک بھی اس کا حصہ ہیں۔
شنگھائی کارپوریشن آرگنائزیشن کا اجلاس، پاکستان کے لیے کڑا امتحان
بی آر آئی میں توسیع کی وکالت
سربراہی اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے پاکستانی وزیر اعظم نے کہا: "شی جن پنگ کے بی آر آئی (بیلٹ اینڈ روڈ انیشیٹیو) اور سی پیک جیسے فلیگ شپ منصوبے میں وسعت دینی چاہیے، جو اپنے دوسرے مرحلے میں ہیں اور بین الاقوامی شمال-جنوبی کوریڈور کو سڑک، ریل اور ڈیجیٹل انفراسٹرکچر کی ترقی پر توجہ مرکوز کرتے ہوئے، اس میں مزید اضافہ ہونا چاہیے۔"
انہوں نے مزید کہا کہ "آئیے ہم ایسے منصوبوں کو ایک سیاسی تنگ نظری کے چشمے سے نہ دیکھیں اور اپنی اجتماعی رابطے کی صلاحیت میں سرمایہ کاری کریں، جو کہ اقتصادی طور پر مربوط خطے کے ہمارے مشترکہ وژن کو آگے بڑھانے کے لیے بہت اہم ہے۔"
ایس سی او: بھارت، پاکستان کا باہمی میٹنگ کا کوئی ارادہ نہیں
اپنے افتتاحی کلمات میں وزیر اعظم شہباز شریف نے کہا "مجھے اپنے معزز مہمانوں کو سر سبز اور خوبصورت دارالحکومت اسلام آباد میں خوش آمدید کہتے ہوئے بے حد خوشی ہو رہی ہے۔"
انہوں نے اس بات پر روشنی ڈالی کہ ایس سی او "شنگھائی کے جذبے سے منسلک عالمی آبادی کے 40 فیصد سے زیادہ کی اجتماعی آواز اور خواہشات کو حقیقت کو تسلیم کرتی ہے۔"
انہوں نے مزید کہا کہ "آج یہاں آپ کی موجودگی اجتماعی سلامتی کو یقینی بنانے اور خطے کی پائیدار ترقی اور خوشحالی کے لیے باہمی فائدہ مند تعاون کو بڑھانے کے لیے ہمارے لوگوں کی امنگوں کو پورا کرنے کے لیے ہمارے مشترکہ عزم کو واضح کرتی ہے۔"
پاکستان میں شنگھائی تعاون تنظیم کا سربراہی اجلاس، سکیورٹی ہائی الرٹ
شنگھائی تعاون تنظیم 'کثیرالجہتی کی روشنی ہے'
پاکستانی وزیر اعظم نے کہا، "ہم تبدیلی کے ایک ایسے تاریخی لمحے میں ہیں، جہاں بڑی عالمی تبدیلیاں، سماجی، سیاسی، اقتصادی اور سیکورٹی کے منظر نامے کو نئی شکل دے رہی ہیں۔"
شنگھائی تعاون تنظیم کے پلیٹ فارم کو "کثیرالجہتی کی روشنی" قرار دیتے ہوئے انہوں نے مزید کہا "میں اس بات پر پختہ یقین ہے کہ ہمارے پاس اپنے لوگوں کے لیے زیادہ خوشحال، مستحکم اور محفوظ مستقبل بنانے کی نہ صرف صلاحیت ہے بلکہ اجتماعی خیر بھی ہے، جو تمام رکن ممالک کی مشترکہ خواہشات کی عکاسی کرتی ہے۔"
وزیر اعظم شہباز نے زور دے کر کہا کہ "ہمارا تعاون، مشترکہ ٹیم ورک تعلیمی اور سیاحتی روابط کو وسعت دیتا ہے، غربت کے خاتمے اور ایس سی او کے پورے خطے میں خواتین اور نوجوانوں کو بااختیار بناتا ہے، یہ اتحاد کے ذریعے خوشحالی کو فروغ دینے کے ہمارے عزم کی عکاسی ہے۔"
پی ٹی آئی کے احتجاج سے قبل دارالحکومت سیل، موبائل سروس بلاک
بھارتی وزیر خارجہ نے کیا کہا؟
بھارتی وزیر خارجہ ایس جے شنکر ایس سی او کانفرنس میں شرکت کے لیے گزشتہ روز اسلام آباد پہنچے تھے، جنہوں نے پاکستان کو اس سال شنگھائی تعاون تنظیم کے سربراہان کی کونسل کی صدارت کے لیے مبارکباد پیش کی اور کہا کہ بھارت ایک کامیاب صدارت کے لیے اپنی مکمل حمایت کرتا ہے۔
تاہم انہوں نے کہا کہ تعاون "باہمی احترام، خود مختاری اور مساوات پر مبنی" ہونا چاہیے۔ ایس سی او کو "علاقائی سالمیت اور خودمختاری کو تسلیم کرنا چاہیے۔" اسے حقیقی شراکت داری پر بنایا جانا چاہیے اور یکطرفہ ایجنڈوں پر نہیں۔"
بھارتی وزیر خارجہ نے کہا کہ "تین برائیوں" کا مقابلہ کرنے کی ضرورت، جن سے سمجھوتہ نہیں کیا جا سکتا۔ انہوں نے کہا کہ "اگر سرحدوں کے آر پار سرگرمیاں دہشت گردی، انتہا پسندی اور علیحدگی پسندی کی خصوصیات ہیں، تو ان سے تجارت، توانائی کے بہاؤ، رابطوں اور لوگوں کے درمیان تبادلے کی حوصلہ افزائی کا امکان بہت کم ہو جاتا ہے۔"
بھارتی وزارت خارجہ نے اس حوالے سے ایک طویل بیان جاری کیا ہے، جس میں کئی باہم دلچسپی اور تصفیہ طلب امور پر روشنی ڈالی گئی ہے۔
ص ز/ ج ا (نیوز ایجنسیاں)