شورش زدہ عرب ریاستوں میں خلیجی ممالک کا کلیدی کردار
20 اپریل 2011قبل ازیں جرمن وزیر نے قاہرہ میں مصری حکام کے ساتھ بات چیت کے دوران مصر میں جمہوریت کے نئے آغاز کی راہ میں پائی جانے والی رکاوٹوں پر جرمنی کی جانب سے تشویش کا اظہار کیا۔ ویسٹر ویلے نے مصر میں جمہوریت کے فروغ اور قانون کی بالا دستی پر زور دیا۔
دراصل جرمن وزرائے خارجہ خلیجی تعاون کونسل اور یورپی یونین کے وزرائے خارجہ کے سالانہ اجلاس میں عمومی طور پر حصہ نہیں لیا کرتے۔ تاہم اس بار معاملہ مختلف ہے۔ وجہ یہ ہے کہ عرب ممالک میں بغاوت کی لہر کے بعد سے تین اہم ریاستوں لیبیا، بحرین اور یمن میں خلیجی ممالک غیر معمولی کردار ادا کر رہے ہیں۔ ابو ظہبی میں ہونے والے مذاکرات میں تبادلہ خیال کا یہ موقع جرمن وزیر خارجہ کے لیے دلچسپی کا باعث ہے۔
لیبیا میں متحدہ عرب امارات کے جنگی طیارے باغیوں کی مدد کر رہے ہیں اور قطر نو فلائی زون کی نگرانی کرتے ہوئے اس معاملے میں سب سے آگے نظر آ رہا ہے۔ اس نے لیبیا کے باغیوں کو فوجی سازوسامان فراہم کیا ہے۔ اُن کا تیل فروخت کر رہا ہے اور قطر ہی وہ پہلا ملک ہے، جس نے باغی حکومت کو تسلیم بھی کیا ہے۔ خلیجی ممالک لیبیا پر یہ ثابت کر رہے ہیں کہ وہ معاملہ سلجھانے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ دُبئی میں قائم ’ گلف ریسرچ سینٹر سے منسلک کرسٹیان کوخ کہتے ہیں’ شورش زدہ عرب علاقوں میں دو خلیجی ممالک کلیدی کردار ادا کر رہے ہیں، جن میں سے قطر کا کردار غیر معمولی ہے۔ مشرق وسطیٰ کے خطے میں ہونے والی تمام سرگرمیوں میں قطر قائدانہ کردار ادا کر رہا ہے۔ لیبیا میں نیٹو کی سرگرمیوں کو تمام عرب ممالک کی طرف سے قطر نے ہی جائز قرار دیا ہے‘۔
لیبیا میں خلیجی ممالک عوام کو معمر قذافی کے شر سے بچانے کی کوشش کر رہے ہیں جبکہ بحرین میں وہ بادشاہ کی پشت پناہی کرتے ہوئے اُنہیں عوامی احتجاج سے تحفظ فراہم کر رہے ہیں۔ بحرین میں سعودی عرب اور امارات کے ڈیڑھ ہزار فوجی، حکمرانوں کی مدد کے لیے تعینات ہیں۔ وہاں جمہوریت کی جدوجہد کو کچل دیا گیا ہے۔ بحرین اب ایک پولیس اسٹیٹ کی شکل اختیار کر گیا ہے۔ سیاسی امور کے ماہر کوخ کے بقول بحرین میں حکمرانوں کی طرف سے صرف اور صرف طاقت کو برقرار رکھنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ ان کا کہنا ہے ’ بحرین میں شیعہ اکثریت بادشاہت کو تسلیم نہیں کرتی اور اپنے حقوق کے لیے سیاسی تبدیلی چاہتی ہے۔ انتہا پسند عناصر شیعہ آبادی کی جانب سے چلائی جانے والی تحریک میں شامل ہوتے جا رہے ہیں۔ اگر بحرین میں عدم استحکام اور سیاسی بحران مزید بڑھتا ہے تو ایران کو علاقائی امور میں مزید مداخلت کا موقع مل جاتا۔‘
اُدھر یمن میں خلیجی ممالک نے کوئی کامیابی حاصل نہیں کی۔ یمنی صدر کے ساتھ مذاکرت کی کوششیں بار آور ثابت نہ ہوسکیں۔ شاید اس لیے کہ یمنی صدر کو سعودی عرب کی پشت پناہی حاصل ہے۔ یمن کے مسئلے پرخلیجی ممالک کے درمیان اختلاف رائے پایا جاتا ہے۔
رپورٹ:کارسٹن کیونٹوپ/ کشور مصطفیٰ
ادارت: عدنان اسحاق