شٹل عہد کا خاتمہ: مستقبل پر نظر
22 جولائی 2011دو ہفتے کے مشن کے دوران اٹلانٹس نے بین الاقوامی خلائی اسٹیشن ISS پر ضروری ساز و سامان پہنچایا جو ایک سال کے عرصے کے لیے کافی ہوگا۔
شٹل کے خلابازوں، انجینئروں اور ٹیکنیشنوں کے لیے یہ انتہائی جذباتی لمحہ تھا۔ شٹل کے لانچ ڈائریکٹر مائیک لائن بیک کا کہنا ہے کہ انہوں نے آج بالغ مردوں اور خواتین کی آنکھوں میں خوشی کے آنسو دیکھے۔ یہ انسانی جذبات تھے جو آنکھوں سے پانی کی صورت میں بہہ نکلے اور آپ انہیں روک نہیں سکتے۔
ناسا کو امید ہے کہ شٹل کے 30 سالہ عہد کے اختتام کو انسانی خلائی پرواز میں ایک نئی صبح کے آغاز کے طور پر دیکھا جائے گا، جس میں امریکی خلائی ادارہ زمین کے نچلے مدار سے اپنی توجہ ہٹا کر سیارچوں اور مریخ پر مبذول کرنے کے لیے آزاد ہوگا۔ تاہم اس دوران ناسا کے اس فیصلے پر کافی تنقید کی جا رہی ہے۔
1960 کی دہائی سے تعلق رکھنے والے بعض ممتاز خلابازوں نے ناسا سے کھلے عام مطالبہ کیا ہے کہ شٹل پروگرام کو جاری رکھا جائے۔ ان کا کہنا ہے کہ اسے بند کرنے کا فیصلہ ایک غلطی ہے اور ناسا کے مستقبل کے منصوبے انتہائی مبہم ہیں۔
ناسا حکام کا اصرار ہے کہ اٹلانٹس کی آخری پرواز سے خلا میں امریکی دلچسپی میں کمی واقع نہیں ہوئی۔ خلائی ادارے کے سربراہ چارلس بولڈن نے کہا، ‘‘میں امریکی خلا بازوں کو وہاں بھیجنا چاہتا ہوں، جہاں وہ اس سے پہلے کبھی نہیں گئے اور اس مقصد کے لیے ہم اپنے وسائل تحقیق اور جدت پر وقف کریں گے جبکہ نچلے درجے کے مدار میں لے جانے کا کام نجی شعبے کے سپرد کر دیا جائے گا۔’’
تاہم ناسا کو نیا خلائی جہاز تیار کرنے کے لیے سرمایے کی ضرورت ہے۔ مستقبل قریب میں بجٹ کٹوتیوں کے پیش نظر صدر باراک اوباما نے دوبارہ چاند پر جانے کے لیے خلائی جہاز تیار کرنے کے منصوبے کو ختم کر دیا، جس کا تصور ان کے پیشرو جارج بش نے دیا تھا۔ اس کی بجائے وہ چاہتے ہیں کہ ناسا اپنی توجہ ایسے راکٹ کی تیاری پر مرکوز کرے، جو خلا بازوں کو خلا کی وسعتوں میں لے جائے جبکہ انہیں نچلے مدار میں لے جانے کا کام تجارتی کمپنیاں سرانجام دیں۔
اس دوران بین الاقوامی خلائی اسٹیشن جانے والے تمام خلاباز 2014 تک روسی راکٹ سویوز پر سفر کریں گے، جس کی لاگت 55 ملین ڈالر فی نشست ہے۔ گزشتہ ایک دہائی سے زیادہ توجہ بین الاقوامی خلائی اسٹیشن کی تعمیر پر مرکوز ہے، جو خلا میں مستقل انسانی موجودگی کا اگلا مرحلہ ہے۔
رپورٹ: حماد کیانی
ادارت: امجد علی