شہباز شریف کی مبينہ آڈیو لیک، ن لیگ کی مشکلات میں اضافہ
25 ستمبر 2022وفاقی وزرا کی مبينہ آڈیو لیک سے کئی حلقوں میں یہ سوال بھی زیر بحث ہے کہ آیا وزیر اعظم کے دفتر میں کوئی اہم بات چیت افشاں ہوئے بغیر کی بھی جا سکتی ہے یا نہیں۔
واضح رہے کہ گزشتہ روز وزیرِ اعظم پاکستان شہباز شریف کی مبینہ آڈیو ٹیپ منظر عام پر آئی تھی، جس میں بظاہر ایک شخص وزیر اعظم کو مطلع کر رہا ہے کہ مریم نواز شریف اپنے داماد کے لیے بھارت سے پاور پلانٹ درآمد کرانے کا کہہ رہی ہیں۔ وہ شخص بتا رہا ہے کہ آدھا پلانٹ بھارت سے آ چکا تھا اور آدھا باقی ہے۔ اس پر دوسرا شخص شہباز شریف کو مشورہ دیتا ہے کہ یہ کام اسحاق ڈار سے کرا لیں، وہ سمجھا دیں گے۔
پی ٹی آئی کا واویلا اور سوشل میڈیا پر شور
پاکستان تحريک انصاف کے کئی رہنماؤں نے اس آڈیو کو ٹویٹر اور دوسرے سوشل میڈیا پلیٹ فارمز پر شیئر کیا اور نون لیگ کو اس مسئلے پر آڑے ہاتھوں لیا۔ اس آڈیو لیک کے حوالے سے ایک ٹویٹر ٹرینڈ بھی چل رہا ہے، جس کی مد ميں اکتالیس ہزار سے زائد ٹویٹس کی جا چکی ہیں۔
کاروں کی امپورٹ پر ڈیوٹی کی معافی، وزیر اعظم کی شاہ خرچیاں تنقید کی زد میں
پاکستانی وزیراعظم کا جنرل اسمبلی سے خطاب: کشمیر اور سیلاب موضوع
حکومت کا مستقبل: حالات کس رخ پر جارہے ہیں
کچھ ناقدین لیک کے حوالے سے نہ صرف ن لیگ پر تنقید کر رہے ہیں بلکہ وہ کچھ نشرياتی اداروں اور ٹيلی وژن اینکرز پر بھی فقرے کس کر رہے ہیں۔ اس مسئلے پر سابق وزیر داخلہ شیخ رشید نے تبصرہ کرتے ہوئے لکھا، ''شریف خاندان کلیئرنس کے بغير اپنی شوگر ملوں کے لیے انجنز بھارت سے منگواتا ہے۔‘‘
فواد چوہدری نے ان لیکس کو انٹیلیجنس ایجنسیز کی ناکامی قرار دیا۔ پی ٹی آئی کی رہنما مسرت جمشید چیمہ نے لکھا، ''مریم نواز ایک کرپٹ مجرم ہیں، قوم کی بیٹی نہیں۔ انہیں قوم کی بیٹی کہہ کر قوم کی بیٹیوں کی توہین نہ کی جائے۔‘‘
معروف صحافی مظہر عباس نے لکھا، ''ایک لیک کے بعد وزیر اعظم ہاؤس سے دوسری لیک نے ممکنہ اندرونی سیاسی رسہ کشی اور اقتدار کی لڑائی کے حوالے سے کئی سوالات کو جنم دیا ہے۔ اس کے پیچھے کیا ممکنہ محرک ہو سکتا ہے؟ کیا کسی کو ذمہ دار ٹھہرایا جائے گا؟ ریاست کی رٹ قائم کرنا کا یہ امتحان ہے۔‘‘
ن لیگ کو سیاسی نقصان
کئی ناقدین کا خیال ہے کہ لیکس کا اصل ٹارگیٹ مریم نواز اور سابق وزیر اعظم نواز شریف ہیں، جس سے ن لیگ کو بہت سیاسی نقصان ہوگا۔ لاہور سے تعلق رکھنے والے تجزیہ نگار حبیب اکرم کا خیال ہے کہ لیک سے ن لیگ کو مجموعی طور پر نقصان ہو گا۔ انہوں نے ڈی ڈبلیو اردو کو بتایا، ''لیکن پارٹی سے زیادہ یہ مریم کے ليے بہت زیادہ نقصان دہ ہے کیونکہ آڈیو سے یہ تاثر مل رہا ہے کہ شہباز شریف قانون کی حکمرانی کی بات کر رہے ہیں اور مریم اس کے برعکس مطالبہ کر رہی ہیں۔ لیکس کے بعد اب مریم فی الحال وزارت عظمی کی دوڑ میں شامل نہیں ہو سکیں گی۔‘‘
پی ٹی آئی کو فائدہ
کچھ ناقدین کا خیال ہے کہ اس سے پی ٹی آئی کو فائدہ ہو گا کیونکہ عمران خان یہ کہتے رہے ہیں کہ ن لیگ اقتدار میں اپنے کاروبار کو بڑھانے کے ليے آتی ہے اور مال بناتی ہے۔ حبیب اکرم کا کہنا ہے کہ یہ آڈيو جاری کرنے کا بظاہر مقصد یہی نظر آتا ہے کہ کوئی عمران خان کو خوش کرنا چاہتا ہے اور ایسی لیکس کے پیچھے ایجنسیوں کا ہاتھ ہوتا ہے۔ رکن قومی اسمبلی اور ایم کیو ایم کی رہنما کشور زہرہ کا کہنا ہے کہ پی ٹی آئی اس مسئلے کو خوب اچھالے گی۔ انہوں نے ڈی ڈبلیو اردو کو بتایا، ''یقیناً ایسی آڈيو نادیدہ قوتیں ليک کرتی ہیں اور اس سے عمران خان کو فائدہ ہوگا۔ وہ اپنے جلسے اور جلوسوں میں اس معاملے کو خوب اچھالیں گے۔‘‘
تاہم کشور زہرہ کا يہ بھی کہنا ہے کہ اس سے بہت سارے اہم سوالات بھی جنم لے رہے ہیں۔ ''سب سے پہلے یہ کہ کون ایسی کالوں کو ریکارڈ کر رہا ہے اور کس کی اجازت سے کر رہا ہے؟ آڈيو لیک کے پیچھے کون ہے اور اس کے کیا مقاصد ہیں؟ کیا کچھ قوتیں اب بھی پی ٹی آئی کی حمایت کر رہی ہیں، جیسا کہ مولانا فضل الرحمن نے بھی کل کہا ہے۔‘‘
کشور زہرہ کے مطابق اگر ن لیگ ليک ہونی والی آڈيو کو مستند نہیں سمجھتی، تو اس کی فرانزک کرانی چاہیے اور اس کی انکوائری بھی ہونی چاہیے۔ ''بصورت دیگر ن لیگ کو بہت سیاسی نقصان ہو گا کیونکہ لوگ کسی انکوائری کے بغیر مطمئن نہیں ہوں گے۔‘‘
چوہدری منیر گروپ کا موقف
ن لیگ کے ایک رہنما نے نام نہ ظاہر کرنے کی شرط پر ایک تحریری جواب ڈی ڈبلیو اردو کو بھیجا جس میں کہا گیا ہے کہ چوہدری منیر گروپ نے اس مسئلے پر ایک تفصیلی وضاحت جاری کی ہے۔ وضاحت کے مطابق، ''وزیر اعظم شہباز شریف کی چوبیس ستمبر کو ایک آڈیو لیک ہوئی، جس میں دو پراجیکٹس کے حوالے سے گفتگو ہے، جن کی ملکیت مریم نواز کے داماد کے پاس ہے۔ اس آڈیو میں یہ تاثر دیا گیا ہے کہ شہباز شریف مریم نواز کے داماد کے ليے کسی قسم کی رعایت مانگ رہے ہیں لیکن سچ اس کے برعکس ہے۔ یہ کہا گیا کہ مریم نواز حکومت سے یہ کہہ رہی ہیں کہ وہ ان کے داماد کو بھارت سے ایک پاور پلانٹ درآمد کرنے کی اجازت دے۔ جب کہ سچ یہ ہے کہ اس پراجیکٹ کا ساٹھ فیصد کام سن 2020 سے پہلے مکمل کر لیا گیا تھا۔ 2020ء میں بھارت سے امپورٹ پر مکمل پابندی کے فیصلے کو نافذ العمل کر دیا گیا۔ اس مبہم پالیسی کی وجہ سے ہم حکومت سے وضاحت چاہتے تھے۔ کیونکہ ہماری مریم نواز شریف سے قریبی رشتہ داری ہے۔ ا س ليے ہم حکومت سے پوچھنا چاہتے تھے کہ کیا ہم اس پراجیکٹ کو مکمل کر سکتے ہیں؟ کیونکہ ہم نے یہ پابندی سے پہلے شروع کیا تھا؟‘‘
حکومت کا جواب آیا کہ گو کہ یہ آپ کے ساتھ زیادتی ہوئی ہے کہ پالیسی پراجیکٹ کی تکمیل کے دوران تبدیل ہوئی لیکن مریم نواز شریف سے قربت کی بنا پر ہم آپ کو تجویز ديتے ہيں کہ آپ حکومت سے اجازت کے ليے درخواست نہ دیں اور متبادل راستے تلاش کریں۔ ہم نے حکومت کے فیصلے کو بخوشی قبول کرتے ہوئے چین کی مدد سے بقیہ پراجیکٹ کو مکمل کیا۔‘‘
گرڈ اسٹیشن کے حوالے سے وضاحت
اس تفصیلی وضاحت میں گرڈ اسٹیشن کے حوالے سے بھی وضاحت پيش کی گئی ہے۔ اس میں کہا گیا، ''یہ بھی کہا جا رہا ہے کہ مریم نواز شریف نے اپنے داماد کی ہاؤسنگ اسکیم کے ليے گرڈ اسٹیشن کی رعایت حکومت سے مانگی۔ سچ یہ ہے کہ ایک پاور کپمنی نے گرڈ اسٹیشن لگانے اور بجلی فراہم کرنے سے انکار کر دیا تھا۔ ہمارے خیال میں اس پاور کمپنی نے نا انصافی کی تھی۔ اس ليے ہم نے لاہور ہائی کورٹ سے 2020ء میں رجوع کیا، جس نے ہمارے حق اور کمپنی کے خلاف فیصلہ دیا۔ لیکن ابھی تک گرڈ اسٹيشن لگایا نہیں گیا۔ دونوں مسائل کے حوالے سے تمام کاغذات موجود ہیں اور طلب کرنے پر دکھائے بھی جا سکتے ہیں۔‘‘