1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

صوبہ خیبرپختون خواہ میں ایڈز کے مرض کی بنیادی وجہ

دانش بابر23 جولائی 2013

اس صوبے میں ایڈز سے متاثرہ افراد کی تعداد قریب 1600 بتائی جاتی ہے۔ اس عارضے میں مبتلا زیادہ تر وہ افراد ہیں جو ملک سے باہرمزدوری کرتے رہے ہیں۔

https://p.dw.com/p/19Bbf
تصویر: Rizwan Tabassum/AFP/Getty Images

ایچ آئی وی ایڈز کی روک تھام کے لئے دنیا بھر میں آئے دن نئے نئے تجربات کئے جاتے ہیں، تاہم محققین اب تک  اس مرض کے علاج میں کامیاب نہیں ہوسکے ہیں۔ ڈاکٹروں کے مطابق اس مرض سے بچاؤ احتیاط کے ذریعے ہی ممکن ہے۔ پاکستان میں اس وقت تقریبا 97ہزار لوگ اس مرض میں مبتلا ہیں۔ جن میں مرد، خواتین اور بچے شامل ہیں۔

صوبہ خیبر پختون خواہ میں اس مرض کے روک تھام کے لئے عالمی اداروں کی مدد سے پشاور اور کوہاٹ میں فیملی کیئر سنٹر کے نام سے دو ادارے قائم کئے گئے ہیں، جن کا کام لوگوں کو اگاہی دینے کے ساتھ ساتھ اس مرض میں مبتلا افرادکی دیکھ بھال کر نا اور ان کو مفت ادویات فراہم کرنا ہے۔ پشاور کے فیملی کیئر سنٹر میں ایچ آئی وی فیزیشن کے عہدے پر کام کرنے والے ڈاکٹر ادریس کا کہنا ہے، خیبر پختون خواہ میں اس مرض سے متاثرہ افراد کی تعداد 1600تک ہے۔ یہ وہ لوگ ہیں جن میں اس مرض کے وائرس کی تصدیق ہوچکی ہے۔ ان کے مطابق، اور بھی بہت سے لوگ ہونگے جن میں یہ وائرس موجود ہیں، لیکن یا تو وہ اس سے لاعلم ہیں اور یا وہ معاشرے کے خوف سے کسی کو بتانے سے کتراتے ہیں، کیونکہ ہمارے لوگ ناصرف اس میں مبتلا مریض بلکہ اس کے خاندان کے ساتھ تعلق ترک کردیتے ہیں، جو کہ ایک غلط طرز عمل ہے۔

AIDS Pakistan
ایڈز کے مرض سے متعلق آگاہی کا کام بھی جاری ہےتصویر: AP

ایچ آئی وی ایڈز ایک ایسی بیماری ہے جس میں اگر احتیاط نہ کی جائے تو یہ پورے خاندان میں پھیل جاتی ہے، یہ مرد سے عورت اور عورت سے پیدا ہونے والے بچے میں منتقل ہوجاتی ہے۔ اس مرض کے پورے خاندان میں پھیلنے کے بارے میں ڈاکٹر ادریس کا کہنا ہے،

”اس بیماری کی سب سے مشکل بات یہ ہے کہ دس سال بعد اس کا پتہ چلتاہے اور اس کے وائرس خود کو ظاہر کرتے ہیں، تو اس دوران مریض بے خبر ہوتا ہے اور وہ لا علمی میں اس دوران شادی بھی کر لیتا ہے یا اکثر کیسز میں خون کا عطیہ بھی دیتارہتاہے جس سے یہ بیماری پھیل جاتی ہے۔“

ایچ آئی وی کا کوئی علاج ابھی تک دریافت نہیں ہوا، البتہ اگر اس میں مبتلا مریض با قاعدگی سے دوایوں کا استعمال کریں تو کسی حد تک اس کو بڑھنے سے روکاجاسکتا ہے۔

Prostitution in Pakistan
پاکستان میں جسم فروشی کرنے والی خواتین کی طرف سے ایچ آئی وی ایڈز کے ٹیسٹ کا مطالبہتصویر: dpa

ڈاکٹر ادریس کا کہنا ہے کہ وہ روزانہ تقریباتین سے پانچ مریضوں کا معائنہ کرتے ہیں، ان میں زیادہ تعداد ان لوگوں کی ہے جو دوسرے ممالک میں محنت مزدوری کرنے گئے ہوتے ہیں اور یہ لوگ اس مرض کی وجہ سے ان ممالک سے جبراَ نکال دیئے جاتے ہیں، اس بارے میں انکا مزید کہنا ہے،

”ہمارے جتنے بھی لوگ غیرممالک میں کا م کرتے ہیں،  ان میں سے زیادہ تر کا تعلق غریب طبقے سے ہوتا ہے، یہ لوگ کئی سالوں تک ملک نہیں آتے، یہ لوگ اپنی جنسی خواہشات کو پورا کرنے کے لئے ان خواتین کے پاس جاتے ہیں جو جنسی کاروبارکرتی ہیں، غربت کے مارے یہ افراد ان خواتین کے پاس جاتے ہیں جن کے ریٹ کم ہوتے ہیں، اور جن کے ریٹ کم ہونگے تو ان کے کسٹمر (گاہگ) بھی زیادہ ہونگے، تو اس طرح جب بعد میں ان کے ٹیسٹ کئے جاتے ہیں تو وہ مثبت نکلتے ہیں اور پھر ان کو ڈیپورٹ کیا جاتا ہے، اور واپس آکر یہ لوگ کسی کو بھی نہیں بتاتے۔“

Indien: Aids, zwei HIV-infizierte Frauen
بھارت میں سیکس ورکرز میں ایڈز کا مرض عام ہےتصویر: AP

یہ ایک حقیقت ہے کہ ایچ آئی وی ایڈز کا وائرس جنسی تعلق قائم کرنے سے ایک سے دوسرے انسان میں منتقل ہوجاتا ہے اور اس کے ظاہر ہونے کے بعد لوگ امید کا دامن چھوڑ دیتے ہیں، لیکن ڈاکٹر ادریس کے مطابق اگر اس قسم کے لوگ ادویات کا درست استعمال کریں تو وہ نا صرف اچھی زندگی گزار سکتے ہیں بلکہ ایڈز میں مبتلا جوڑے صحت مند بچے بھی پیدا کر سکتے ہیں، اس بارے میں انہوں نے بتایا،

” اگر دونوں میں یہ بیماری ہے اور ان کی خواہش ہے کہ ان کے بچے ہوں، کیونکہ یہ ہر انسان کی خواہش ہوتی ہے، تو یہ بالکل ممکن ہے، ہم والدین کو میڈیسن دیتے ہیں اور جب بچہ پیدا ہوتا ہے تو اُسے بھی ڈیڑھ سال تک دوا دی جاتی ہے۔ ابھی تک ہمارے ہاں 28 بچوں کی پیدائش ہوئی ہے اور ان میں سے کسی میں بھی اس وائرس کی تصدیق نہیں ہوئی۔“

 رپورٹ: دانش بابر پشاور

ادارت: کشور مصطفیٰ