صوبہ سندھ: الطاف حسین کے بیانات پر سخت رد عمل
6 جنوری 2014الطاف حسین نے کہا تھا کہ اگر اردو بولنے والے سندھیوں کا حق تسلیم نہیں کیا جاتا، تو ان کا صوبہ الگ کردیا جائے۔ اور اگر ایسا نہ ہوا تو بات الگ ملک تک بھی جاسکتی ہے۔ اس پر سندھی قوم پرستوں اور قومی سیاسی جماعتوں نے سخت رد عمل ظاہر کیا ہے۔
حکومتی جماعت پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری سمیت ہر رہنما نے اس بیان پر کھل کر اظہار خیال کیا ہے۔ سندھی قوم پرستوں نے الطاف حسین کے اس بیان کو سندھ کی تقسیم کے مطالبے سے تعبیر کیا ہے۔ خصوصا سندھ میں چند ماہ قبل تک مشترکہ طور پر پانچ برس تک حکومت کرنے والی پیپلز پارٹی اور ایم کیو ایم ایک دوسرے کی نہ صرف بدترین مخالف بن گئی ہیں بلکہ ماضی کی سیاست کی طرف لوٹ رہی ہیں۔
ایم کیو ایم گزشتہ دس برس مسلسل حکومت میں رہنے کے باعث مہاجر کا نعرہ چھوڑ کر متحدہ کے نام سے ملک گیر سیاست میں مشغول ہوگئی تھی۔ اب اقتدار سے باہر آتے ہی وہ واپس مہاجر کے نعرے کی سیاست کی طرف گامزن ہے۔ سینئر صحافی طارق حبیب کہتے ہیں کہ الطاف حسین نے اس طرح کے بیانات پہلی مرتبہ نہیں دیے۔ وہ ماضی میں بھی ایسا کئی بار کر چکے ہیں۔
لیکن اگر میڈیا ایم کیو ایم کو دیگر سیاسی جماعتوں کی طرح کوریج دے اور دیگر سیاسی جماعتیں الطاف حسین کے بیان پر غیر ضروری ردعمل ظاہر کرنے کی بجائے اسے بیان برائے بیان کی طرح لینے کی عادی ہو جائیں تو کوئی حرج نہیں، کیونکہ ان کے بقول یہ سب کچھ صرف بلدیاتی انتخابات کے لیے کیا جا رہا ہے۔
اتوار پانچ جنوری کو ایم کیو ایم نے کراچی میں جلسہ کیا، جس سے خطاب میں الطاف حسین نے اپنے سابقہ بیان کی وضاحت کرتے ہوئے سندھ کی تقسیم کے مطالبے کی تردید کی اور کہا کہ میڈیا نے ان کے بیان کو حقائق کے منافی پیش کیا ہے۔ مگر پھر اگلے ہی لمحے انہوں نے بالواسطہ طور پر سندھ ون اور ٹو کا فارمولا بھی پیش کر دیا۔ الطاف حسین کے مطابق سندھ ون سندھی بولنے والوں کے لیے اور سندھ ٹو دیگر قومیتوں کے لیے بنا دیا جائے۔
سندھ کی سیاسی اور قوم پرست جماعتوں نے الطاف حسین کے اس مطالبے کو بھی پہلے بیان کا چربہ گردانا۔ عوامی تحریک کے سربراہ ایاز لطیف پلیجو نے تو الطاف حسین کے بیان کے خلاف سندھ میں ہڑتال کی کال بھی دے ڈالی مگر گزشتہ رات ایم کیو ایم کا ایک وفد حیدرآباد میں ایاز لطیف پلیجو کے گھر پہنچ گیا اور الطاف حسین کے بیان کے حوالے سے وضاحت پیش کی۔ جواب میں ایاز لطیف پلیجو نے ہڑتال کی کال واپس واپس لے لی اور کہا کہ سندھ میں اردو بولنے والے سندھیوں کے ساتھ ہونے والی زیادتیوں پر بھی آواز بلند کی جائے گی مگر ایم کیو ایم سیاسی معاملات میں سندھ کی یکجہتی کو درمیان میں نہ لائے۔
پیپلز پارٹی نے جلسے سے الطاف حسین کی جانب سے ایم کیو ایم کو بلدیاتی انتخابات کے حوالے سے مذاکرات میں نظر انداز کرنے کے الزام کی کھل کر ترید کی۔ بلاول بھٹو زرداری نے اپنے ایک ٹوئٹر پیغام میں کہا کہ ایم کیو ایم کے لوگ الطاف حسین کو گمرا کر رہے ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ حکومت سندھ نے ایم کیو ایم کو ہر مرحلے پر اعتماد میں لیا ہے۔
حکومت سندھ کے وزیر اطلاعات اور پیپلز پارٹی کے ڈپٹی سیکرٹری اطلاعات شرجیل میمن نے الطاف حسین کے سندھ ون اور سندھ ٹو کے مطالبے کو مضحکہ خیز قرار دیتے ہوئے کہا کہ سندھ ایک ہے اور ایک ہی رہے گا۔ مسلم لیگ فنکشنل کے امتیاز شیخ نے بھی الطاف حسین کے اس بیان کی مذمت کی اور کہا کہ حکومت سے اختلافات کی بنیاد پر صوبے کی تقسیم کا مطالبہ درست نہیں۔ ماہر سیاسیات کاشف حسین کے مطابق پیپلز پارٹی اور ایم کیو ایم اپنے طرز عمل سے سندھ میں موجود دیہی اور شہری علاقوں کے درمیان خلیج کو مزید گہرا کر رہی ہیں۔