طورخم بارڈر کی بندش: افغان طالبان کی پاکستان پر کڑی تنقید
10 ستمبر 2023افغان طالبان نے پاکستان کے ساتھ اپنے ملک کی اس سب سے مصروف سرحدی گزر گاہ کی بندش پر تنقید کرتے ہوئے اتوار دس ستمبر کے روز کہا کہ اس بارڈر کراسنگ کے بند کر دیے جانے کے نتیجے میں تجارت کے لیے سامان کی آمد و رفت رک جانے سے افغان تاجروں کو بھاری کاروباری نقصانات ہو رہے ہیں۔
پاک افغان سرحد پر جھڑپ، طورخم بارڈر کراسنگ پھر بند
کابل میں وزارت خارجہ کی انتظامیہ کے جاری کردہ ایک بیان کے مطابق پہلے اس سرحد پر افغان سکیورٹی فورسز پر کی جانے والی فائرنگ اور پھر اس سرحد کو بند کر دینے کا فیصلہ ایسے اقدامات ہیں، جو 'ہمسایوں کے طور پر اچھے طرز عمل‘ کے منافی ہیں۔
پاکستانی موقف
اس کے برعکس پاکستان کا دعویٰ ہے کہ یہ سرحدی گزر گاہ سرحد پار سے پاکستانی سکیورٹی اہلکاروں پر کی جانے والی فائرنگ اور پھر اطراف کے مابین فائرنگ کے تبادلے کے بعد بند کی گئی تھی۔ ساتھ ہی اسلام آباد کئی مرتبہ کابل میں موجودہ ملکی انتظامیہ سے یہ مطالبہ بھی کر چکا ہے کہ وہ افغان سرزمین سے پاکستان اور پاکستانی سکیورٹی فورسز پر کیے جانے والے حملے بند کروائے۔
پاکستان کافی عرصے سے یہ مطالبہ بھی کر رہا ہے کہ عسکریت پسند افغان سرزمین کو پاکستان پر حملوں کے لیے استعمال کر رہے ہیں اور طالبان کی قیادت کو یہ سلسلہ بند کرانا چاہیے۔ پاکستان پر افغانستان سے حملے کرنے والے عسکریت پسندوں سے اسلام آباد کی زیادہ تر مراد ممنوعہ تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) کے ان شدت پسندوں سے ہوتی ہے، جن میں سے بہت سے اب افغانستان میں پناہ لیے ہوئے ہیں۔
افغان طالبان نے طورخم بارڈر کراسنگ دوبارہ کھول دی
طورخم کی سرحد کی بندش کی وجہ سے اس وقت یہ گزر گاہ پار کرنے کے خواہش مند ہزاروں ڈرائیور اپنے مال بردار ٹرکوں کے ساتھ وہاں پھنسے ہوئے ہیں۔
پاکستان اور افغانستان کی مشترکہ سرحد 2600 کلومیٹر (1615 میل) طویل ہے اور اس سرحد سے جڑے دوطرفہ تنازعات عشروں سے دونوں ہمسایہ ممالک کے مابین کشیدگی کی وجہ بنتے رہتے ہیں۔
پاک افغان سرحد بند، طورخم پر ہزاروں مال بردار ٹرک پھنس گئے
ایک اور پاکستانی فوجی کی ہلاکت
پاکستانی فوج کے مطابق ملک کے شمال مغرب میں افغان سرحد کے قریب گزشتہ رات عسکریت پسندوں کے ساتھ ایک مسلح جھڑپ میں ایک اور پاکستانی فوجی مارا گیا۔
خیبر پختونخوا میں چھ پاکستانی فوجی اور سات ٹیچر بھی ہلاک
پاکستان آرمی نے اتوار کے روز بتایا کہ یہ جھڑپ صوبے خیبر پختونخوا کے ضلع شمالی وزیرستان میں میر علی کے مقام پر ہوئی۔ وہاں پاکستانی سکیورٹی دستے عسکریت پسندوں کی تلاش کے لیے کارروائیاں کر رہے تھے کہ وہ شدت پسندوں کی فائرنگ کی زد میں آ گئے، جس کے بعد اطراف کے مابین فائرنگ کا تبادلہ شروع ہو گیا۔
ماضی میں وفاق پاکستان کے زیر انتطام قبائلی علاقے یا فاٹا کہلانے والے شمالی اور جنوبی وزیرستان جیسے متعدد نیم خود مختار اضلاع عشروں تک عسکریت پسندوں کی محفوظ پناہ گاہیں رہے ہیں۔
م م / ع ت (روئٹرز، اے پی)