طوطے صابر، شاطر اور اقتصادی منصوبہ ساز ہوتے ہیں، نئی تحقیق
30 اگست 2018ماہرین کے نزدیک پرندوں خاص کر طوطوں میں اس ذہنی صلاحیت کا سائنسی طور پر ثابت ہو جانا اس امر کی طرف اشارہ کرتا ہے کہ یہ صلاحیت ان کی بقا میں اہم کردار ادا کرتی ہے۔ یہ کہ طوطے اب تک کے اندازوں کے برعکس کافی زیادہ فکری اہلیت کے مالک ہوتے ہیں، یہ بات جرمنی میں پرندوں پر تحقیق کرنے والے ماکس پلانک انسٹیٹیوٹ کے ایک تازہ مطالعے کے نتیجے میں سامنے آئی۔
پرندوں پر تحقیق کرنے والے ماہرین حیاتیات ’اورنیتھالوجسٹ‘ کہلاتے ہیں۔ جرمنی کے ماکس پلانک انسٹیٹیوٹ فار اورنیتھالوجی کے محققین کی اس ریسرچ سے پتہ چلا ہے کہ پرندے فوراﹰ ہی کھانے کی ہر وہ مزیدار چیز قبول نہیں کرتے، جو انہیں پیش کی جائے۔
اس پروجیکٹ کے محققین نے طوطوں کی ایک بڑی تعداد کو کھانے کے لیے مختلف زرعی اجناس کے بیج پیش کیے تو اکثر طوطوں نے یہ بیج لینے اور کھانے میں ہچکچاہٹ کا مظاہرہ کیا یا سرے سے اس کھانے میں کوئی دلچسپی ہی نہ دکھائی۔
لیکن انہوں نے ایسا صرف اس وقت کیا جب وہ اخروٹوں کی ان گریوں کو بھی دیکھ رہے تھے، جو ان سے کچھ ہی دور تھیں اور انہیں اندازہ تھا کہ بعد میں انہیں اخروٹ کے یہی مغز کھانے کے لیے پیش کیے جا سکتے ہیں۔ اس مطالعاتی جائزے کے نتائج کی مرکزی مصنفہ انستازیا کراشےنینیکووا کے مطابق، ’’ان طوطوں نے اپنے اس ردعمل کا فیصلہ یہ دیکھتے ہوئے کیا کہ اگر وہ تھوڑا سا صبر کریں، تو انہیں کھانے کے لیے انعام کے طور پر ملنے والے خوراک مقدار میں زیادہ اور لذیذ تر بھی ہو سکتی ہے۔‘‘
انستازیا کراشےنینیکووا اپنے کئی ساتھی محققین کے ساتھ اسپین کے جزائر ٹینےریفا پر مختلف اقسام کے 36 پرندوں پر تحقیق کر رہی ہیں۔ لورو پارک فاؤنڈیشن کے اشتراک سے مکمل کیے گئے اس جائزے میں طوطوں کی مختلف اقسام کی خوراک کے حصول کی خواہش اور اس سلسلے میں دانستہ ذہنی رویوں کا مطالعہ کیا گیا۔
یہ بات تو پہلے سے طے شدہ ہے کہ پرندوں، خاص کر طوطوں کو کھانے کے لیے اگر مختلف زرعی اجناس کے بیج دیے جائیں، تو وہ بھوک لگنے پر انہیں کھا تو لیتے ہیں لیکن یہ اکثر پرندوں کا من پسند کھانا نہیں ہوتا۔
اس کے بعد دوسرے نمبر پر زیادہ پسند کی جانے والی خوراک سورج مکھی کے بیج تھے، جنہیں پرندے قدرے زیادہ پسند کرتے ہیں۔ تاہم اکثر طوطوں نے کھانے کے لیے اپنی من پسند خوراک کے حصول کے لیے صبر اور دانش مندی کا مظاہرہ کرتے ہوئے اس وقت تک انتظار کیا جب تک کہ انہیں کھانے کے لیے اخروٹ کے مغز پیش نہیں کیے گئے تھے۔
انستازیا کراشےنینیکووا کے مطابق، ’’اس جائزے کے دوران ان درجنوں پرندوں کو یہ موقع بھی فراہم کیا گیا تھا کہ وہ یا تو اپنے لیے کھانے کی کوئی چیز لے لیں یا پھر کھیلنے کے لیے کوئی کھلونا، جیسے کہ ’لیگو‘ کا کوئی ٹکڑا۔ اکثر پرندوں نے بھوک لگنے پر عام بیجوں کا انتخاب اس وقت کیا، جب انہیں خوراک ملنے کا کوئی دوسرا امکان نظر نہیں آ رہا تھا۔ لیکن جب ان کے پیٹ بھرے ہوئے تھے تو انہوں نے لیگو کے ٹکڑے جمع کرنا شروع کر دیے۔ پھر جب انہیں بھوک لگی تو انہوں نے پلاسٹک کے کھلونوں کے ٹکڑوں کے عوض اپنے لیے عام بیجوں کے مقابلے میں اخروٹ کے مغز حاصل کرنے کو ترجیح دی۔‘‘
اس سائنسی مطالعے کے نتائج کی وضاحت کرتے ہوئے ماکس پلانک انسٹیٹیوٹ کے ماہرین کی اس ٹیم کی طرف سے کہا گیا، ’’ان پرندوں نے اپنے رویوں سے یہ بھی ثابت کر دیا کہ وہ نہ صرف سوچ سکتے ہیں بلکہ اپنی ترجیحات کا تعین بھی کر سکتے ہیں۔ انہوں نے ’فوری چھوٹے فائدے‘ کے بجائے ’بعد میں ملنے والے بڑے فائدے‘ کو ترجیح دی۔‘‘
ان ماہرین کے مطابق، ’’یہ پرندے اپنے رویوں میں اقتصادی سوچ کا مظاہرہ کر رہے تھے۔ انہوں نے یہ بھی ثابت کر دیا کہ اچھی چیزیں انہی کو ملتی ہیں، جو ان کے لیے انتظار کرنا جانتے ہیں۔‘‘ ان ماہرین نے اس سائنسی مطالعے سے نتیجہ یہ اخذ کیا ہے کہ پرندے، خاص کر طوطے صابر ہونے کے ساتھ ساتھ شاطر بھی ہوتے ہیں اور مخصوص حالات میں اقتصادی منصوبہ ساز بھی۔‘‘