عالمی دفاعی اخراجات میں بے تحاشہ اضافہ، رپورٹ
24 اپریل 2023زیادہ مسائل، زیادہ اخراجات۔ یہ ہے وہ ایک اہم نتیجہ، جو معروف سکیورٹی تھنک ٹینک اسٹاک ہوم انٹرنیشنل پیس ریسرچ انسٹی ٹیوٹ (سپری) کی طرف سے پیر کو شائع کیے گئے تازہ ترین اعداد و شمار سے نکلتا ہے۔ اس تھنک ٹینک سے وابستہ محققین نے سن دو ہزار بائیس میں دنیا بھر میں فوجی اخراجات میں سال بہ سال 3.7 فیصد کا اضافہ ریکارڈ کیا۔ یہ شرح فوجی اخراجات میں ایک ہمہ وقتی تیزی کی نشاندہی کرنے کے ساتھ ساتھ کئی سالوں سے ان میں جاری مسلسل اضافے کے رجحان کو بھی واضح کرتی ہے۔
امریکہ کو جنگیں 3.7 ٹریلین ڈالرز میں پڑیں، رپورٹ
سپری کے ایک سینیئر محقق نان تیان نے ڈی ڈبلیو کو بتایا،''اس سے قطع نظر کہ معیشتیں توقع سے زیادہ بہتر یا بدتر ہو رہی ہیں، افواج پچھلے سالوں یا اس سے پہلے کی تاریخ کے مقابلے میں زیادہ مالی وسائل لے رہی ہیں۔‘‘
ان لوگوں کے لیے جو عالمی واقعات پر نظر رکھتے ہیں، دفاعی اخراجات دوگنا ہونے کا امکان کوئی تعجب کی بات نہیں۔ یوکرین کے خلاف جاری روسی جنگ نے خاص طور پر یورپی ممالک کو اپنے فوجی بجٹ پر ازسر نو توجہ دینے پر مجبور کیا ہے۔ فروری 2022 کے آخر میں یوکرین کے شہروں پر پہلے روسی میزائل داغے جانے کے بعد سے ایک کے بعد دوسرے ملک نے نئے دفاعی اخراجات کا اعلان کیا۔
یورپی یونین کے اپنے دفاعی منصوبے پر امریکا کو تشویش کیوں؟
حفاظتی حصار کے لیے اخراجات
زیادہ تر یورپی ممالک پر مشتمل یورو۔اٹلانٹک فوجی اتحاد یا نیٹو کے رکن ممالک میں دفاعی اخراجات کم از کم 2014ء سے بڑھ رہے ہیں۔ یہی وہ وقت ہے، جب روس نے ابتدائی طور پر یوکرین پر حملہ کیا اور جزیرہ نما کریمیا کا اپنے ساتھ الحاق کرتے ہوئے مشرقی یوکرین میں علیحدگی پسندوں کی پشت پناہی کی۔
نیٹو کے ارکان نے 2024ء تک اپنی اپنی قومی مجموعی پیداوار (جی ڈی پی) کا دو فیصد حصہ دفاعی اخراجات کے اہداف پر خرچ کرنے کے لیے اتفاق کیا ہے اور بہت سے ممالک آہستہ آہستہ اس ہدف کو پورا کرنے کی سمت کام کر رہے ہیں۔
تاہم وہ روسی خطرہ، جس سے مقابلے کے لیے یہ ساری رقم صرف کی جانی ہے، اتنا خوفناک ثابت نہیں ہوا، جتنا کہ اس کا شروع میں تصور کیا گیا تھا۔ حقیقت یہ ہے کہ یوکرین نے اپنے سے بہتر سمجھی جانے والی روسی افواج کا اب تک کامیابی سے مقابلہ کیا ہے اور انہیں ملک کے ایک کونے تک محدود رکھا ہے، جو کہ باقی یورپ کے لیے وسیع روسی خطرے پر سنگین شکوک پیدا کر رہا ہے۔
اس کے باوجود نئے فوجی سازو سامان اور دفاع سے متعلق دیگر اخراجات کے لیے پیسہ بہایا جارہا ہے۔ محقق نان تیان کا کہنا ہے کہ روس میدان جنگ میں ناکام ہو لیکن یہ سائبر اسپیس میں اب بھی ایک طاقتور مخالف ثابت ہو سکتا ہے۔ ڈیجیٹل انفراسٹرکچر پر حملے کم لاگت میں لیکن زیادہ نقصان دہ ہو سکتے ہیں اور یقیناً روس کے پاس کافی تعداد میں جوہری ہتھیار بھی موجود ہیں۔
انہوں نے کہا،''بہت سے یورپی ممالک کے لیے یہ ( اخراجات) واقعی میں دفاع کے تمام پہلوؤں کو بہتر بنانے کے بارے میں ہیں۔ زیادہ فوجی اخراجات روس کے خلاف مزاحمت کی علامت ہیں۔‘‘
اعدادو شمار کے معنی
یہ ایک پیچیدہ منظر نامہ ہے۔ اس کے تحت حکومتیں سلامتی کے بڑھتے ہوئے خدشات کا جواب دینے کی کوشش میں اس کے مزید بگاڑ میں حصہ ڈال رہی ہیں۔ تاہم سپری کے اعداد و شمار سے یہ بھی پتہ چلتا ہے کہ اخراجات کی رفتار اتنی واضح نہیں، جیسا کہ شہہ سرخیاں اور پالیسی ساز بعض اوقات اسے ظاہر کرتے ہیں۔
فوجی اخراجات مسلسل اضافے کے بعد سن دو ہزار بائیس میں مجموعی طور پر دو ٹریلین یورو تک تو پہنچ گئے ہیں لیکن یہ جی ڈی پی کے ایک حصے کے طور پر 2013 ءکے مقابلے میں اب بھی صفر اعشاریہ ایک فیصد کم ہیں۔ یہ صورتحال اس حقیقت کے باوجود ہے کہ گزشتہ ایک دہائی میں کچھ جوہری طاقتوں کے علاوہ بھارت، چین اور اسرائیل جیسے ممالک کی طرف سے اپنے دفاعی اخراجات میں دوہندسی اضافہ کیا گیا ہے۔ تاہم ان ممالک میں سے ہر ایک میں دفاعی اخراجات میں قومی اقتصادی پیداوار کے تناسب سےکمی آئی ہے۔
اس تضاد سے پتہ چلتا ہے کہ اقتصادی توسیع نے دفاع جیسے شعبوں میں قومی بجٹ کو پیچھے چھوڑ دیا ہے۔ دوسرے لفظوں میں یہ ممالک قوت خرید کھو چکے ہیں۔ وزارت دفاع کو لڑاکا طیاروں کے اسکواڈرن کی خریداری کے وقت اسی طرح کی قیمتوں کے دباؤ کا سامنا کرنا پڑتا ہے، جیسا کہ ایک عام گھرانہ انڈوں کا ایک کارٹن خریدنے کے لیے کرتا ہے۔
وہ ممالک جو اپنی افواج کوترقی دینے یا جدید بنانےکے خواہاں ہیں، انہیں سپری کی رپورٹ میں بیان کی لاگت سے بھی زیادہ خرچ کرنا پڑتا ہے۔
صرف بم اور گولیاں نہیں
یہ صرف گولہ بارود ہی نہیں، جس کی خریداری پر اخراجات اٹھتے ہیں بلکہ اس سے ہٹ کر بھی دفاعی شعبے میں وسیع اخراجات ہیں۔ قومی دفاعی ادارے لاکھوں سویلین اور فوجی اہلکاروں کو ملازمت دیتے ہیں۔ بعض اوقات دور دراز اور دشمن کے علاقوں میں ان ملازمین کو کھانا کھلانے، لباس مہیا کرنے اور ان کی رہائش کا انتظام کرنے کے لیے بڑے اخراجات کی ضرورت ہوتی ہے۔
اس لیے یہ ضروری نہیں دفاعی اخراجات میں اضافےکا مطلب مزید ہتھیاروں کی خریداری اور جنگی صلاحیتوں میں اضافہ ہی ہو۔ اگرچہ اس وقت اسلحے کی صنعت عروج پر ہے اور یہ مانگ پوری کرنے کے لیے دباؤ میں ہے لیکن مخلتف ممالک میں دفاعی وزارتیں کسی بھی دوسرے دفتر کی طرح لائٹس روشن رکھنے اور بیت الخلاء کی صفائی کے لیے بھی ادائیگیاں کر رہی ہیں۔
دفاعی اخراجات میں ہر سال ہونے والے اضافے میں فوجی امداد بھی شامل ہے، جس میں یوکرین میں روس کی جنگ کی وجہ سے غیر معمولی اضافہ دیکھنے میں آیا ہے۔ جرمنی کے اقتصادی تھنک ٹینک کیل انسٹی ٹیوٹ کے مطابق صرف امریکہ نے تنہا یوکرین کے دفاع کے لیے 47 بلین ڈالر سے زیادہ کا تعاون کیا ہے۔
اس کے ساتھ ساتھ ہتھیاروں کے بڑے اور پیچیدہ نظاموں کے حصول اور انہیں استعمال میں لانے میں برسوں لگ سکتے ہیں۔ یوکرین نے نیٹو ارکان سے، جو بہت سے ہوائی جہاز، میزائل بیٹریاں اور بکتر بند گاڑیاں حاصل کرنے کے لیے زور دیا ہے وہ کئی دہائیوں پرانی ہیں۔ سپری کے مطابق کچھ تازہ ترین اخراجات جوہری صلاحیتوں کو جدید بنانے پر بھی خرچ کیے جارہے ہیں، جن کے بارے میں زیادہ تر امید یہی ہے کہ وہ کبھی بھی استعمال نہیں ہوں گی۔
جب دفاع پر خرچ کی جانے والی رقم اتنی بڑی ہو تو اس کے بدلے ٹیکس دہندگان پر پڑنے والے اثرات پر ہمیشہ ایک سوال ہی رہتا ہے۔ یہ خاص طور پر امریکہ کا معاملہ ہے، جو اب تک فوجی اخراجات میں سب سے آگے ہے۔ سپری کی رپورٹ کے مطابق 2022 ء میں سرکاری امریکی دفاعی بجٹ 790 بلین یورو تھا۔ یہ عالمی فوجی اخراجات کا 39 فیصد ہے۔
امریکہ جو چین کو اپنے دفاعی بجٹ میں اضافے کی ایک بڑی وجہ قرار دیتا ہے، وہ دفاعی اخراجات میں عالمی طور پر دوسرے نمبر پر ہے۔ بیجنگ نے گزشتہ سال اپنے دفاعی اخراجات پر263 بلین یورو خرچ کیے۔ دنیا کی ان دو سب سے بڑی معیشتوں کے درمیان تفاوت کے باوجود بہت سے امریکی حکام اور سکیورٹی تجزیہ کار چین کے فوجی برتری حاصل کرنے کے بارے میں خبردار کر رہے ہیں۔
ولیم نوح گلوکرافٹ( ش ر، اا)