'عثمان بزدار وعدہ معاف گواہ بھی بن سکتے ہیں'
2 جون 2023پاکستان کے سب سے بڑے صوبے پنجاب کے سابق وزیر اعلی اور پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے چیئرمین عمران خان کے قابل اعتبار ساتھی سردارعثمان بزدارکی طرف سے سیاست سے دستبرداری کے اعلان نے پی ٹی آئی کے لیے ایک بڑی پریشان کن صورتحال پیدا کر دی ہے۔
جنوبی پنجاب کے علاقے تونسہ سے تعلق رکھنے والے چون سالہ عثمان بزدار کو پچھلے چودہ مہینوں سے کرپشن کے متعدد مقدمات کا سامنا تھا۔ جمعہ کے روز ایک مختصر پریس کانفرنس میں انہوں نے نو مئی کے واقعات کی مذمت کرتے ہوئے سیاست سے دستبرداری کا اعلان کیا اور کہا کہ وہ فوج کے ساتھ کھڑے ہیں اور آئندہ بھی کھڑے رہیں گے۔
واضح رہے کہ عثمان بزدار پی ٹی آئی کے دور حکومت میں تین سال سے زائد عرصے تک پنجاب صوبے کے وزیراعلیٰ رہے۔ انہیں پی ٹی آئی کے متعدد اہم اور سینئر لیڈروں کو نظر انداز کرکے عمران خان نے وزیر اعلی بنایا تھا۔
کہا جاتا ہے کہ پچھلے آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ کے بار بار کے مشوروں کے باوجود عمران خان نے انہیں وزارت اعلیٰ کے عہدے سے ہٹانے سے انکار کر دیا تھا۔
کیا پاکستانی اسٹیبلشمنٹ کا نیا ’سیاسی فارمولا‘ کامیاب ہو سکے گا؟
پرویز الہی کی گرفتاری سے کس کو کیا پیغام دیا گیا؟
عمران خان کے ’’وسیم اکرم پلس‘‘
عثمان بزدار کی بطور وزر اعلی کارکردگی سے متعلق پی ٹی آئی میں ان کے خلاف خبریں گردش کرتی رہتی تھیں لیکن چیئرمین پی ٹی آئی عمراان خان نے ہمیشہ ان کی کارکردگی کو سراہا اور وہ انہیں ''وسیم اکرم پلس‘‘ قرار دیتے تھے۔
بعد ازاں سیاسی حالات بدل جانے کے بعد عمران خان نے اپنی حکومت کے آخری ایام میں عثمان بزدار کو وزارت اعلیٰ سے ہٹا کر پرویز الٰہی کو پنجاب کا وزیراعلیٰ مقرر کیا تھا۔
سینئر تجزیہ کار حفیظ اللہ نیازی نے ڈی ڈبلیو سے گفتگو کرتے ہوئے بتایا کہ ان کے لیے عثمان بزدار کے سیاست چھوڑنے کا اعلان اس لیے حیران کن نہیں ہے کہ وہ جانتے ہیں کہ عثمان بزدار بہت کمزور آدمی ہیں اور ان میں اتنا دم خم نہیں کہ وہ کسی دباؤ کا زیادہ دیر مقابلہ کر سکیں۔
نیازی کے بقول، ''عمران خان نے اس شخص کو زمین سے اٹھا کر آسمان کی بلندیوں تک پہنچا دیا لیکن یہ عمران خان کو جتنی جلدی چھوڑ گیا ہے اس سے مجھے لگتا ہے کہ آنے والے دنوں میں سردار عثمان بزدار عمران کے خلاف وعدہ معاف گواہ بن سکتے ہیں۔‘‘
سیاسی جماعتیں تحریک انصاف سے مذاکرات کیوں نہیں کرنا چاہتیں؟
کریک ڈاون: پاکستانی خواتین کی سیاست میں عملی شرکت کو دھچکہ
اب صورتحال کیا رخ اختیار کرے گی؟
اس سوال کے جواب میں کے اس پریس کانفرنس کے بعد عثمان بزدار کے خلاف دائر کیے جانے والے مقدمات کا کیا بنے گا حفیظ اللہ نیازی کا کہنا تھا کہ وہی بنے گا جو اس ملک میں ہمیشہ سے بنتا آیا ہے۔
سینئر تجزیہ کار اور ٹی وی اینکر سجاد میر نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ سردار عثمان کی سیاست سے دستبرداری طاقتور حلقوں اور عوام کے دباؤ کا نتیجہ ہے۔ ان کے خیال میں نو مئی کے واقعات کے بعد جو حالات سامنے آئے ہیں عثمان بزدار کو اس سے الگ کرکے دیکھنا ممکن نہیں ہے۔
سجاد میر نے کہا، ''اس وقت تک پاکستان تحریک انصاف کے سو سے زائد افراد پارٹی چھوڑ چکے ہیں۔ حیرت انگیز طور پر ان کی پریس کانفرنس نو مئی کے واقعات کی مذمت، پاک فوج کی حمایت اور سیاست، پی ٹی آئی یا اس کا عہدہ چھوڑنے کا اعلان لیے ہوئے ہوتی ہے۔‘‘
اس سوال کے جواب میں کہ یہ سلسلہ کب تک جاری رہے گا؟ سجاد میر کہتے ہیں کہ نو مئی جیسے افسوس ناک واقعات کی جتنی بھی مذمت کی جائے وہ کم ہے لیکن پھر اگر انسانی حقوق کی پاسداری کو دھیان میں نہ رکھا گیا تو اس عمل کے خلاف آوازیں بھی اٹھ سکتی ہیں۔
ممتاز تجزیہ کار سلمان غنی نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ اس سے پہلے بھی ملکی تاریخ میں لوگ سیاسی وفاداریاں بدلتے رہے ہیں لیکن پاکستانی سیاست میں یہ پہلی دفعہ دیکھا جا رہا ہے کہ اتنی بڑی تعداد میں لوگ سیاست سے ہی کنارہ کش ہوتے جا رہے ہیں۔
انسانی حقوق کی پامالی مسائل پیدا کرے گی
غنی کا کہنا ہے، '' اسی طرح ماضی میں اداروں کی مخصوص پالیسیوں یا ان کے کچھ مخصوص طریقہ کار کو تنقید کا نشانہ بنایا جاتا رہا ہے لیکن جس طرح ماضی قریب میں اداروں کو براہ راست ٹارگٹ کیا گیا ہے وہ ایک نیا رجحان ہے اور اسی وجہ سے نوبت موجودہ حالات تک پہنچی ہے۔ ‘‘
سلمان غنی کے مطابق عثمان بزدار پہلی مرتبہ پنجاب اسمبلی کے رکن بنے تھے اور دو ہزار اٹھارہ کے انتخابات سے ذرا پہلے پی ٹی آئی میں شامل ہونے والے آخری آدمی تھے۔ لیکن اس کے باوجود عمران خان نے انہیں وزیر اعلیٰ بنا کر بہت سوں کی مخالفت مول لی تھی۔ لیکن وہ بھی عمران خان کے ساتھ کھڑے نہ رہ سکے۔
پی ٹی آئی کے خلاف کريک ڈاؤن، مبصرين کيا کہتے ہيں؟
پاکستان میں سیاسی وفاداریاں تبدیل کرنے کی ریت
اس سوال کے جواب میں کہ وفاداریاں بدلوانے کا یہ سلسلہ کب تک چلتا رہے گا؟ سلمان غنی نے بتایا کہ جب تک سیاست دان اپنے مخالفین کی تذلیل کے لیے اپنا کندھا فراہم کرتے رہیں گے۔ یہ سلسلہ چلتا رہے گا۔
غنی کا مزید کہنا تھا، ''جب نواز شریف پر سختی آئی ہوئی تھی تو عمران خان بالا دست قوتوں کے ساتھ کھڑے ان کے معاون بنے ہوئے تھے۔ آج عمران خان پر سختیوں کے پہاڑ ٹوٹ رہے ہیں اور ان کے مخالف سہولت کار بنے ہوئے ہیں۔ اگر ملک میں جمہوریت کو مضبوط کرنا ہے تو پھر سیاسی جماعتوں کو مضبوط اور میچور ہونا ہو گا۔ ‘‘