عراق میں جہادیوں کے خلاف امریکی آپریشن
25 اگست 2014عراق اور شام میں خود ساختہ اسلامی ریاست کی بڑھتی ہوئی دہشت نے دنیا کو ایک نئے خوف میں مبتلا کر دیا ہے۔ اس خطرے نے شورش زدہ ان عرب ملکوں کے متحارب دھڑوں کو بھی ہلا کر رکھ دیا ہے اور ان کی نظریں مدد تلاش کرنے لگی۔
امریکا نے انسانی بحران کے حل اور عراق میں موجود اپنے شہریوں کے تحفظ کے نام پر آئی ایس کے جہادیوں کے خلاف آپریشن شروع کیا۔ تاہم عراق کے لیے امریکی صدر باراک اوباما کی حکمتِ عملی کو تنقید کا سامنا ہے۔
اوباما نے عراق میں اسلامی ریاست کے شدت پسندوں کے خلاف آپریشن کی منظوری اگست کے پہلےہفتے میں دی تھی۔ انہوں نے اس کے دو مقصد بیان کیے، جن میں سے ایک عراق میں تعینات امریکیوں کا تحفظ تھا اور دوسرا وہاں عام شہریوں تک امداد پہنچانا تھا۔
اس کے ساتھ ہی امریکی صدر کا یہ بھی کہنا تھا کہ آئی ایس سنیوں کی نمائندگی کا دعویٰ کرتی ہے لیکن یہ سنی مردوں، خواتین اور بچوں کو بھی قتل کر رہی ہے۔
اوباما نے اس آپریشن کو کوئی نام نہیں دیا تھا نہ ہی اس میں آئی ایس کو تباہ کرنے کا عندیہ دیا۔ انہوں نے یہ بھی کہا تھا کہ وہ امریکی لڑاکا فورسز کو اس آپریشن میں شامل نہیں کریں گے۔
ان کے بیان میں ایک اور پیغام بھی تھا جو زیادہ واضح نہیں تھا۔ اس پیغام میں انہوں نے کہا تھا کہ عراق میں نئی حکومت کے قیام کے بعد امریکا بغداد اور دیگر حکومتوں کے ساتھ مل کر انسانی بحران کے حل اور انسدادِ دہشت گردی کی کوششوں میں معاونت کرے گا۔
جس وقت اوباما یہ باتیں کر رہے تھے، عراقی وزیر اعظم نوری المالکی غیر فیصلہ کُن انتخابات کے بعد بھی اقتدار میں رہنے کا عندیہ دے چکے تھے۔ امریکی رائے میں انہوں نے سنّیوں کو نظر انداز کیا اور عراقی فوج کو منظم نہ کر سکے جو بلآخر آئی ایس کے ڈرامائی عروج کا باعث بنا۔ ان وجوہات پر مالکی کے سابق اتحادی ایران نے بھی ان کی حمایت سے ہاتھ کھینچ لیا۔
اس کے کچھ دِنوں میں ہی عراق کے صدر نے حیدر العابدی کو نیا وزیر اعظم نامزد کر دیا اور آخر کار چودہ اگست کو مالکی نے اقتدار چھوڑنے کا اعلان کیا۔
عراق میں نئی حکومت کی تشکیل سے قبل ہی امریکا آپریشن کو انسانی بنیادوں پر مدد کے مقصد سے آگے لے گیا اور اس نے موصل ڈیم کو آئی ایس کے باغیوں سے چھڑوانے کے لیے عراقی اور کرد فورسز کی مدد کی۔ تاہم امریکا کا بدستور کہنا تھا کہ یہ ڈیم جہادیوں کے قبضے میں رہتا تو اس سے عام شہریوں کے ساتھ ساتھ عراق میں تعینات امریکی عملے اور تنصیبات کو نقصان پہنچ سکتا تھا۔
ناقدین نے اس جواز کو تنقید کا نشانہ بنایا ہے۔ ایک تھِنک ٹینک ولسن سینٹر کے روبن رائٹ نے اوباما پر زور دیا کہ وہ عراق کے بارے میں کھل کر سامنے آئیں۔
بعدازاں آئی ایس کی جانب سے امریکی صحافی جیمز فولی کی ہلاکت نے امریکا کو ایک خطرناک پیغام دیا۔ واشنگٹن انتظامیہ پر دباؤ بڑا کہ وہ اسلامی ریاست کے خلاف اپنا مشن تیز کر دے۔ امریکی حکومت کا مؤقف بھی سخت ہونے لگا ہے۔ امریکی وزیر دفاع چک ہیگل کہہ چکے ہیں کہ ان کی حکومت کو ہر چیز کے لیے تیار رہنا ہو گا جبکہ اوباما کے مشیر بین رھودس فولی کے قتل کو امریکا پر دہشت گردانہ حملے کے مترادف قرار دے چکے ہیں۔