عرب دنيا ميں ہنگاموں سے متاثرہ مہاجرين کی منزل يورپ
11 اپریل 2011يورپی کميشن کا مطالبہ ہے کہ مالٹا اور اٹلی آنے والے شمالی افريقہ کے پناہ گزينوں کو يورپی يونين کے رکن ممالک ميں تقسيم کيا جائے تاکہ کسی ايک ملک پر زيادہ بوجھ نہ پڑنے پائے۔ جرمنی نے لمبے عرصے تک مزاحمت کی ليکن اب وہ مالٹا سے 100 پناہ گزينوں کو قبول کرنا چاہتا ہے۔
يورپی يونين کے وزرائے داخلہ آج پير کو شمالی افريقہ سے آنے والے پناہ گزينوں ہی کے موضوع پر بات چيت کے لئے اکٹھے ہورہے ہيں۔اس کانفرنس کے دوران يہ واضح ہوگا کہ کيا دوسرے رکن ممالک جرمنی کی اس پيشکش سے مطمئن ہيں يا نہيں۔ جرمنی کے متعلقہ حکام کا کہنا ہے کہ وہ مزيد پناہ گزينوں کے داخلے کے انتظامات بھی کرچکے ہيں۔
احمد سيد سن 1984ء ميں شام سے فرار ہوکر جرمنی آئے تھے۔ اس سے پہلے انہيں، حکمران بعث پارٹی کا مخالف قرار دے کر دو مرتبہ کوئی وجہ بتائے بغير گرفتار کر ليا گيا تھا۔ ان کا خيال ہے کہ آج مطلق العنان حکومتوں کے لئے جبر کرنا اتنا آسان نہيں رہا جتنا کہ پہلے تھا:
’’ اس وقت سب کچھ چھپ کر کرنا اتنا آسان نہيں ہے۔ اب انٹرنيٹ ہے، ٹيلی وژن ہے اور دوسرے ميڈيا بھی ہيں جن ميں کھل کر ناانصافيوں کو موضوع بنايا جاتا ہے۔‘‘
عرب دنيا ميں سياسی تبديليوں کے نتيجے ميں بہت سے عرب سياسی پناہ کی غرض سے يورپ کا رخ کررہے ہيں جيسے کہ 27 سالہ احمد سيد بھی۔ جہاں يورپی يونين کے رکن ممالک پناہ گزينوں سے بزتاؤ کے بارے ميں غور کررہے ہيں، وہاں جرمنی ميں متعلقہ حکام شمالی افريقہ کے عرب پناہ گزينوں ميں سے کچھ کو جرمنی ميں جگہ دينے کے انتظامات ميں مصروف ہيں۔ ترک وطن اور مہاجرين کے وفاقی جرمن دفتر کے سربراہ منفريڈ شمٹ نے کہا:
’’ اگر يورپی يونين نے پناہ گزينوں کو جرمنی ميں بھی آباد کرانے کا فيصلہ کيا تو وفاقی جرمن دفتر اور وفاقی صوبے بھی اس انسانی نوعيت کی امداد کے ليے تيار ہيں۔‘‘
ترک وطن اور مہاجرين کے وفاقی جرمن دفتر پر اس سلسلے ميں کام کا بوجھ پہلے ہی خاصا زيادہ ہے۔ پچھلے سال سياسی پناہ کے ليے داخل کی جانے والی درخواستوں ميں 50 فيصد کا اضافہ ہوا تھا اور وہ 41 ہزار تک جا پہنچی تھيں۔ ان کی تعداد مسلسل بڑھتی جارہی ہے۔
تاہم سياسی پناہ کی درخواست منظور ہونے کا عمل بہت طويل ہے اور اس دوران کام يا کہيں سفر کی اجازت بھی نہيں ہوتی۔ يہ صورتحال متاثرہ افراد کے ليے کافی تکليف دہ ہوتی ہے۔
رپورٹ: ڈينس اشٹوٹے/ شہاب احمد صديقی
ادارت مقبول ملک