عرب ليگ کا شام کا مشن ناکام رہے گا: ڈوئچے ويلے کا تبصرہ
29 دسمبر 2011شروع ميں 150 نہيں بلکہ 500 مبصرين بھيجے جانے کا پروگرام تھا۔ شام رقبے کے لحاظ سے ايک بڑا ملک ہے اور اس کے تقريباً آدھے علاقے ميں خانہ جنگی سے مشابہ حالات پائے جاتے ہيں۔ اس طرح عرب ليگ کے ان مبصرين کا کام آسان نہيں، خصوصاً اس ليے بھی کہ شامی سکيورٹی فورسز ان کی راہ ميں رکاوٹيں بھی ڈال رہی ہيں۔ اگرچہ اسد حکومت نے فی الحال بغاوت کے گڑھ حُمص سے ٹينک ہٹا ليے ہيں، ليکن انہيں تيار رکھا جا رہا ہے تاکہ مبصرين کے اس چھوٹے سے گروپ کے ہٹتے ہی انہيں دوبارہ اپنے مقامات پرلايا جا سکے۔
قابل ذکر بات يہ ہے کہ عرب ليگ کے مبصرين کو فوجی تنصيبات تک رسائی حاصل نہيں ہے۔ اس ليے يہ امکان ہے کہ عرب ليگ کو جن سياسی قيديوں کی رہائی کی نگرانی کرنا ہے، اُنہيں ان فوجی تنصيبات ميں منتقل کر ديا گيا ہے۔ عرب ليگ کے اس مشن کے شروع ہونے کے چند گھنٹوں بعد ہی شامی حکومت کی چھوٹی اور بڑی چالبازيوں کی خبريں موصول ہونے لگيں تھيں۔ بعض مقامات کے ناموں کی تختياں تک بدل دی گئی ہيں تاکہ مبصرين کو بغاوت کے دوسرے مراکز کی طرف جانے سے روک ديا جائے۔ اس کے علاوہ اس مشن سے اس ليے بھی کوئی خاص اميد نہيں رکھی جا سکتی کيونکہ اس کی قيادت سوڈانی جنرل الدابی کر رہے ہيں، جنہوں نے دارفور ميں انسانی حقوق کا کوئی احترام روا نہيں رکھا تھا۔
اس ماہ کے آخر تک شام ميں قيام کرنے والے ان 150 مبصرين ميں شام کے ہمسايہ ممالک لبنان، عراق اور اردن سے تعلق رکھنے والے بہت سے مبصرين بھی شامل ہيں۔ ان ممالک نے شام پر لگائی جانے والی عرب ليگ کی پابنديوں تک پر بھی عمل نہيں کيا ہے۔ اس کے باوجود شامی حکومت نے مبصرين کے اس مشن کی اجازت بہت مشکل ہی سے دی ہے۔ اسد حکومت اس پر اُس وقت راضی ہوئی تھی، جب روس نے سلامتی کونسل ميں ايک قرارداد منظور کرانے کی دھمکی دی تھی۔
عرب ليگ کے مبصرين کا يہ مشن شامی اپوزيشن کی کوئی مدد نہيں کر سکے گا بلکہ اس کا انحصار بڑی حد تک اس پر ہوگا کہ اپوزيشن ملکی اقليتوں کو يہ يقين دلانے ميں کامياب ہوتی ہے يا نہيں کہ اسد حکومت کے خاتمے کے بعد ايک ظالمانہ سنی حکومت قائم نہيں ہوگی، جس سے اقليتيں کم ازکم اُتنی ہی خائف ہيں، جتنی کہ اسد حکومت سے۔
تبصرہ: ڈانيئل شيشکيوٹس / شہاب احمد صديقی
ادارت: حماد کيانی