عرب لیگ نے مانیٹرنگ ٹیم کے سربراہ کو ہٹانے کا مطالبہ مسترد کر دیا
30 دسمبر 2011شام کی اپوزیشن نے عرب لیگ کے مبصرین کی ٹیم کے سربراہ جنرل محمد احمد مصطفیٰ الضابی کو ہٹانے کا بھی مطالبہ کیا ہے۔ انسانی حقوق پر نگاہ رکھنے والی بین الاقوامی تنظیم ایمنسٹی انٹرنیشنل نے بھی الضابی کو مبصرین کی ٹیم کا سربراہ مقرر کرنے پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ وہ سوڈان کی آمریت پسند حکومت کے سربراہ صدر عمر البشیر کے ساتھی ہیں اور ان کا ماضی صاف نہیں ہے۔ پیرس میں مقیم اسد حکومت کے اہم مخالف اور منحرف رہنما ہیثم مانا کا بھی کہنا ہے کہ الضابی کو ہٹانا اگر مسئلہ ہے تو پھر ان کی اتھارٹی کو محدود کردیا جائے۔ دوسری جانب عرب لیگ نے جنرل الضابی کو مبصرین کی ٹیم کا سربراہ مقرر کرنے کے فیصلے کا دفاع کرتے ہوئے کہا ہے کہ ان کی تعیناتی کو تمام اراکین کی تائید حاصل ہے اور وہ یقیناً درست اور مناسب رپورٹ مرتب کریں گے۔
عرب ملکوں کی تنظیم عرب لیگ کے ساٹھ مبصرین نے جمعرات کے روز بھی اسد حکومت کے خلاف نو ماہ سے جاری تحریک کے دوران متاثر ہونے والے شہروں کا دورہ کیا۔ یہ مبصرین مختلف ٹولیوں میں تقسیم ہیں۔ ان کے تین روز سے جاری دورے پر شام کی عوام کے بیشتر حلقوں کی جانب سے عدم اعتماد سامنے آیا ہے۔ شام میں سرگرم افراد کو یقین نہیں ہے کہ مبصرین ایک شفاف رپورٹ مرتب کر سکیں گے۔
شام میں حکومت مخالفین کا خیال ہے کہ عرب لیگ کے مبصرین مسلسل اسد حکومت کے مقرر کردہ افراد کی معیت میں متاثرہ مقامات کا دورہ کر رہے ہیں۔ ان مبصرین کو سکیورٹی کے تحت بھاری نفری دستیاب ہے۔ اس باعث ان کا براہ راست متاثرین کے ساتھ رابطہ مشکل ہو رہا ہے جو کریک ڈاؤن کا سامنا کر رہے ہیں۔ ان حکومتی انتظامات کی وجہ سے سرگرم افراد مبصرین کے ساتھ رابطہ کرنے سے ہچکچا رہے ہیں۔ شام کی صورت حال پر نگاہ رکھنے والی انسانی حقوق کی تنظیموں کا کہنا ہے کہ مبصرین اور تحریک کے سرگرم افراد کے درمیان رابطے کا فقدان ہے۔
دورہ کرنے والی مبصرین کی ٹیم کے ایک رکن نے اپنا نام مخفی رکھنے کی شرط پر عرب ٹیلی وژن الجزیرہ کو بتایا کہ شام کی صورت حال بہت خطرناک ہو چکی ہے۔ اس رکن کے مطابق وسطی شامی شہر حمص پر بدستور شیلنگ کا سلسلہ جاری ہے۔ حکومتی فوج کی شیلنگ حمص کے اس علاقے پر کی جا رہی ہے، جہاں فری سیریئن آرمی مورچہ بند ہے۔
مبصرین کے دورے کے حوالے سے موصولہ بعض رپورٹوں کے مطابق انہوں نے حمص میں حکومتی تشدد کا تازہ عمل اپنی آنکھوں سے دیکھا۔ مبصرین کو معلوم ہوا کہ کس طرح حکومتی سکیورٹی فورسز عام لوگوں پر فائرنگ کرتی ہے۔ مبصرین کی ایک ٹیم کے رکن نے باب عمرو میں لوگوں سے دریافت کیا کہ وہ اس تباہی کے باوجود کیونکر اس شہر میں رہنے پر مجبور ہیں۔
شام بھیجےگئے مبصرین کا چین کی جانب سے خیر مقدم کیا گیا ہے۔ جب کہ امریکہ نے مطالبہ کیا ہےکہ ان مبصرین کو حکومت مخالف تحریک کے متاثرین سے رابطے کے لیے آزادانہ ماحول میسر کیا جائے۔ روسی وزیر خارجہ سرگئی لاوروف نے بھی دمشق حکومت سے ایسا ہی مطالبہ کیا ہے۔
رپورٹ: عابد حسین ⁄ ،خبر رساں ادارے
ادارت: عاطف بلوچ