عزت کا سوال، خواتین سیلاب زدہ دیہاتوں میں رہنے پر مجبور
14 ستمبر 2022پاکستان میں ہونے والی حالیہ موسلا دھار بارشوں کے بعد سیلابی پانی میں گھرے صوبہ پنجاب کے ایک چھوٹے سے گاؤں بستی احمد دین کے 400 رہائشیوں کو بھوک اور بیماری جیسے مسائل کا سامنا ہے۔ لیکن انہوں نے حکومت کی جانب سے انخلاء کی تمام تر درخواستیں مسترد کر دی ہیں۔
اس گاؤں کے رہائشیوں نے اے ایف پی کو بتایا کہ ان کہ لیے حکومتی ریلیف کیمپ میں منتقل ہونے کا مطلب یہ ہے کہ گاؤں کی خواتین اپنے خاندانوں سے باہر نکل کر غیر مردوں کے ساتھ گھل مل جائیں گی۔ ان کے مطابق یہ امر ان کی عزت کو پامال کر دے گا۔
بستی احمد دین کی خواتین کی رائے اس معاملے میں خاندان کے مردوں کی رضا پر انحصار کرتی ہے۔ اس گاؤں کی رہائشی سترہ سالہ شریں بی بی سے جب سوال کیا گیا کہ وہ سیلاب سے نکل کر خشک زمین پر لگائے گئے ریلیف کیمپس میں کیوں نہیں جاتیں؟ تو ان کا کہنا تھا کہ یہ فیصلہ تو ان کے گاؤں کے بزرگ ارکان کے اختیار میں ہے۔
موسمی تبدیلیوں کے باعث ہونے والی تباہ کن مون سون بارشوں نے اس موسم گرما میں پاکستان کے بڑے حصے کو سیلاب سے متاثر کیا ہے۔ بستی احمد دین جیسے کئی دیہاتوں کے رہائشی کھلے آسمان تلے کسمپرسی کی تصویر بنے ہوئے ہیں۔ضلع روجھان میں واقع بستی احمد دین 90 گھروں پر مشتمل تھی جس میں سے نصف مکمل طور پر زیر آب آگئے ہیں۔
اس مون سون کی بارشوں سے قبل گاؤں کے اطراف کپاس کی فصلیں کھڑی تھیں، جو اب سیلابی پانی کے باعث سڑ رہی ہیں۔ اس دیہات کو قریبی شہر سے ملانے والی کچی سڑک دس فٹ پانی کے نیچے ہے۔
دیہاتیوں کے لیے خوراک اور سامان کی خریداری کے لیے نکلنے کا واحد راستہ لکڑی سے بنی ہوئی کشتیاں ہیں۔
جن پر سفر کرنا انہیں معمول سے زیادہ مہنگا پڑ رہا ہے۔ یہاں کشتی ران اس سیلابی صورتحال میں معمول سے کہیں زیادہ کرایہ وصول کررہے ہیں۔ بستی احمد دین کے خاندانوں کے پاس تشویشناک حد تک غذائی اجناس کی قلت ہو چکی ہے۔ ان کے پاس بارشوں کے بعد بھی جو بھی گندم اور دیگر اناج بچ گیا تھا وہ ختم ہونے کو ہے۔
رضاکار جو اس گاؤں میں امدادی سامان پہنچانے کی غرض سے آتے ہیں یہاں کے رہائشیوں سے التجا کرتے ہیں کہ وہ محفوظ مقامات پر منتقل ہوجائیں لیکن اب تک ان کی تمام تر کوششیں بے سود ثابت ہوئی ہیں۔
بستی احمد دین کے رہائشی محمد امیر نے کہا، "ہم بلوچ ہیں۔ بلوچ اپنی خواتین کو باہر جانے کی اجازت نہیں دیتے۔"انہوں نے کہا کہ بلوچ اپنے خاندانوں کو باہر جانے کی اجازت دینے کے بجائے بھوکا مرنا پسند کریں گے۔
قدامت پسند اور پدرانہ روایات کے حامل پاکستان کے کئی علاقوں میں خواتین نام نہاد غیرت کے سخت ترین نظام کے تحت زندگی گزارنے پر مجبور ہیں۔
یہ فرسودہ روایات ان کی نقل و حرکت کی آزادی کو محدود کرتی ہیں اور انہیں اپنے خاندان سے باہر مرد حضرات سے بات چیت کرنے کی قطعی طور پر اجازت نہیں ہوتی۔
ان علاقوں میں یہ خود ساختہ اصول اس قدر سخت ہوتے ہیں کہ خواتین کو مردوں سے گفت و شنید پر یا اپنی منشا کے مطابق کسی مرد سے شادی کی خواہش پر موت کے گھاٹ اتار دیا جاتا ہے کیونکہ یہ خاندان کے لیے "شرم" کا باعث ہوتا ہے۔
اپنے اہل خانہ کو گھر کی دہلیز پار کرنے کی اجازت دینے کے بجائے بستی احمد دین کے لوگ ہفتے میں ایک بار امدادی سامان اور قریبی امدادی کیمپ تک رسائی کے لیے کشتی کے مہنگے سفر کو ترجیح دیتے ہیں۔
گاؤں کے بزرگ مرد حضرات کا ماننا ہے کہ خواتین کے لیے گاؤں سے نکلنا صرف اس وقت قابل قبول ہے جب انہیں صحت کی خرابی کے شدید مسائل کا سامنا ہو اور یہ مرد حضرات قدرتی آفات کا شمار شدید مسائل میں نہیں کرتے۔ اس دیہات کے رہائشی مرید حسین نامی ایک بزرگ کا کہنا ہے کہ انہوں نے سن 2010 کے تباہ کن سیلاب کے دوران بھی اپنے گھروں میں رہنا پسند کیا۔
انہوں نے اے ایف پی کو بتایا، "اُس وقت ہم نے اپنا گاؤں نہیں چھوڑا تھا۔ہم اپنی خواتین کو باہر جانے کی اجازت نہیں دیتے۔ وہ ان کیمپوں میں نہیں رہ سکتیں۔ یہ ہماری عزت کا سوال ہے۔‘‘
ر ب ⁄ ش ر (اے ایف پی)