عزت کے نام پر قتل: پاکستانی خاندان کے خلاف مقدمے کا آغاز
17 نومبر 2011چار رکنی اس خاندان پر الزام ہے کہ اس نے 20 سالہ لڑکی کو بیلجیئم کے ایک شہری کے ساتھ رہنے کے فیصلے پر قتل کر دیا تھا۔ پاکستانی نژاد سعدیہ شیخ بیلجیم میں قانون کی طالبہ تھی۔ سعدیہ کو اس کے بھائی مدثر نے 22 اکتوبر 2007ء کو تین گولیاں مار کر اس وقت قتل کر دیا تھا، جب وہ جھگڑے کے تصفیے کے لیے اپنے خاندان سے ملنے آئی ہوئی تھی۔ قتل کی اس واردارت میں معاونت کے الزام میں سعدیہ کی بہن اور والدین کوبھی مقدمے کا سامنا ہے۔
سعدیہ کے والدین بیلجیم میں ایک دکان چلاتے ہیں۔ انہوں نے جب پاکستان میں سعدیہ کی ایک ایسے کزن سے شادی طے کرنے کی کوشش کی، جس سے وہ کبھی نہیں ملی تھی تو سعدیہ نے گھر چھوڑ دیا۔
بلیجیم ہی کے ایک نوجوان کے ساتھ اکٹھے رہنا شروع کرنے سے قبل سعدیہ نے گھریلو تشدد کے شکار ہونے والے افراد کے ایک مرکز میں بھی کچھ وقت گزارا۔ سعدیہ چونکہ اپنی جان کے حوالے سے خطرہ محسوس کر رہی تھی لہذا اس نے اس مرکز میں اپنی رہائش کے دوران اپنی وصیت بھی تحریر کر لی تھی۔
سعدیہ نے آخر کار تنازعے کے حل کی امید پر اپنے خاندان سے ملنے کا فیصلہ کیا تاہم یہ فیصلہ اس کے لیے جان لیوا ثابت ہوا کیونکہ اس کے بھائی مدثر نے جو اب 27 برس کا ہو چکا ہے اسے فائرنگ کرکے قتل کر دیا۔
سعدیہ کے والدین اور اس کی بہن اس قتل میں ملوث ہونے سے انکار کرتے ہیں۔ ان کا مؤقف ہے کہ مدثر نے غصے میں آکر خود ہی سعدیہ کو ہلاک کیا اور یہ اس کا انفرادی فعل تھا۔
آج 17 نومبر کو بیلجیم کے شہر مونز میں شروع ہونے والی مقدمے کی کارروائی کے دوران سعدیہ کا والد طارق محمود شیخ، والدہ زاہدہ پروین اور بہن ساریہ بھی کٹہرے میں مدثر کے ساتھ موجود ہوں گے۔
اس کے علاوہ ان افراد کو جبری طور پر شادی طے کرنے کی کوشش کرنے کے الزامات کا بھی سامنا کرنا ہوگا۔ اگر ان چاروں افراد پر لگائے گئے الزامات ثابت ہو گئے تو انہیں عمر قید کی سزا ہو سکتی ہے۔ امید کی جا رہی ہے کہ اس مقدمے کی کارروائی تین سے چار ہفتوں کے دوران مکمل ہو جائے گی۔
رپورٹ: افسر اعوان / اے ایف پی
ادارت: شادی خان سیف