غزہ اور اسرائیل میں حملوں پر عالمی غم و غصہ
12 مئی 2021مشرقی یروشلم میں فلسطینیوں کے خلاف اسرائیلی سکیورٹی فورسز کی کارروائیوں اور اس کے بعد اسرائیل اور حماس کے درمیان فوجی تصادم کے نتیجے میں بڑھتی ہوئی ہلاکتوں پر پوری دنیا اور بالخصوص مسلم ممالک میں سخت رد عمل کا اظہار کیا جا رہا ہے۔ اس دوران بدھ کے روز سلامتی کونسل میں ایک بار پھر موجودہ صورت حال پر تبادلہ خیال کا امکان ہے۔
گزشتہ برس اگست میں جب پہلے متحدہ عرب امارات اور پھر بحرین اور سوڈان نے اسرائیل کے ساتھ تعلقات کو معمول پر لانے کے معاہدے کیے تھے تو ترک صدر رجب طیب اردوآن اور ایران کے سپریم لیڈر آیت اللہ خامنہ ای نے اسے مسلم دنیا کے ساتھ غداری قرار دیا تھا۔ حالانکہ بیشتر عرب رہنماوں نے اس مبینہ ابراہیمی معاہدے پریا تو خاموشی اختیار کرلی تھی یا پھر کھل کر نکتہ چینی کرنے سے گریز کیا تھا۔
اسرائیل پر نکتہ چینی
مشرقی یروشلم کی تازہ ترین صورت حال کے مد نظر ایران اور ترکی نے اسرائیل پر ایک بار پھر نکتہ چینی شروع کر دی ہے۔
ایرانی پارلیمان کے اسپیکر محمد باقر قالی باف نے منگل کے روز پارلیمان کے ایک عام اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے مسجد اقصی کی توہین کو عالمی امن و سلامتی کے لیے خطرہ قرار دیتے ہوئے اسلامی ممالک، دیگر ممالک اور بین الاقوامی تنظیموں سے”صہیونی ریاست کے جرائم" کے خاتمے کے لیے فوری اقدامات اٹھانے کا مطالیہ کیا۔
انہو نے کہا کہ صہیونی ریاست کے اس طرح کے اقدامات اور جنگی جرائم کا تسلسل، بین الاقوامی قانون اور انسانی حقوق کی کھلی خلاف ورزی ہے۔
اس سے قبل جمعے کے روز یوم قدس کے موقع پر آیت اللہ خامنہ ای نے اپنے خطاب میں ”جابر حکومت کے خلاف جنگ کو ظلم و زیادتی کے خلاف اور دہشت گردی کے خلاف جنگ" قرار دیتے ہوئے کہا تھا کہ اس حکومت کے خلاف جنگ کرنا ہر ایک شخص کی ذمہ داری ہے۔
انہوں نے اسرائیل کے ساتھ تعلقات کو معمول پر لانے کی عرب ممالک کی کوششوں کو ”فلسطینیوں کے پیٹھ میں چھرا گھونپنے" کے مترادف قرار دیا۔
ترکی کے صدر ایردوآن کے ترجمان ابراہیم کالین نے ٹوئٹر پر ایک بیان میں کہا کہ اسرائیل یروشلم میں فلسطینیوں پر حملے فوراً روکے۔ انہوں نے کہا”دنیا کو اپنے ہی ملک میں اپنے ہی غیر مسلح شہریوں کے خلاف جاری اسرائیلی جارحیت کو روکنا چاہیے۔"
ایردوآن نے ملائیشیا کے شاہ اور قطر کے امیر سے مسجد اقصی اور فلسطینیوں پر اسرائیل کے حملوں پر تبادلہ خیال کیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ اسرائیلی حملوں کے خلاف علاقائی ممالک اور بین الاقوامی رائے عامہ کو متحر ک کرنے کے لیے ترکی اور قطر کو مل کر کام کرنے کی ضرورت ہے۔
اس دوران ترکی کے مختلف شہروں میں اسرائیل مخالف مظاہرے بھی ہوئے ہیں۔
سعودی عرب کا ردعمل
سعودی وزارت خارجہ کی طرف سے جاری ایک بیان میں عالمی برادری پر زور دیا گیا ہے کہ اسرائیل کو اس جارحیت کا ذمے دار ٹھہرایا جائے۔ بیان میں کہا گیا ہے کہ اسرائیلی کارستانیوں کو فوری طور پر روکے جانے کی ضرورت ہے جو بین الاقوامی منشوروں کے خلاف ہیں۔
نیویارک میں اسلامی تعاون تنظیم (آئی سی سی) کی ہنگامی میٹنگ میں سعودی عرب کے مندوب نے کہا کہ ان کا ملک بیت المقدس سے فلسطینی باشندوں کو طاقت کے ذریعے بے دخل کرنے کی اسرائیلی منصوبہ بندی کو یکسر مسترد کرتا ہے۔ مشرقی بیت المقدس میں فلسطینیوں کو ان کے گھروں سے نکال باہر کرنا اور ان کے گھروں کی مسماری بین الاقوامی قوانین اور عالمی قراردادوں کی کھلی خلاف ورزی ہے۔
سعودی مندوب کا کہنا تھا کہ سعودی عرب فلسطینیوں کی حمایت جاری رکھے گا اور مشرقی بیت المقدس کو آزاد اور خود مختار فلسطینی ریاست کا دارالحکومت بنانے کی کوششوں میں فلسطینیوں کی حمایت کرے گا۔
او آئی سی اور عرب لیگ
او آئی سی کے رکن ممالک کے سفیروں نے نیویارک میں منعقدہ میٹنگ میں اسرائیلی جارحیت پر اپنے غم و غصے کا اظہار کرتے ہوئے فلسطینیوں کے خلاف اسرائیلی فوج کی جانب سے 'وحشیانہ' قوت کے استعمال کی مذمت کی۔
عرب ریاستوں کی نمائندہ تنظیم عرب لیگ نے کہا ہے کہ غزہ پر اسرائیل کا فضائی حملہ 'اندھا دھند اور غیر ذمہ دارانہ' ہے۔ عرب لیگ کے سربراہ ابوالغیط نے کہا کہ یروشلم میں خطرناک اشتعال انگیزی کا ذمہ دار اسرائیل ہے، ساتھ ہی انہوں نے تشدد روکنے کے لیے عالمی برادری سے فوری طور پر اقدامات کرنے کا بھی مطالبہ کیا۔
ایمنسٹی انٹرنیشنل کی اپیل
انسانی حقوق کی عالمی تنظیم ایمنسٹی انٹرنیشنل نے یروشلم کی تشویش ناک صورت حال پر سلامتی کونسل سے ایک کھلا اجلاس طلب کرنے کی اپیل کرتے ہوئے کہا ”مقبوضہ بیت المقدس کے مشرقی حصے میں اسرائیلی سکیورٹی فورسز نے فلسطینی مظاہرین کے خلاف بار بار، غیر ضروری اور ضرورت سے زیادہ طاقت کا استعمال کیا ہے۔"
ایمنسٹی انٹرنیشنل نے اسرائیلی حکام سے فوری طور پر شیخ جراح سے جبری بے دخلی روکنے اور مشرقی بیت المقدس سے فلسطینیوں کی جاری نقل مکانی کے خاتمے کا مطالبہ بھی کیا۔
امریکا صورت حال سے باخبر
واشنگٹن نے اسرائیل پر حماس کے راکٹ حملوں کی مذمت کی ہے اور کہا کہ امریکا اسرائیل کے حق دفاع کی حمایت کرتا ہے۔
وائٹ ہاوس کی طرف سے جاری ایک بیان میں کہا گیا ہے کہ صدر بائیڈن کو یروشلم اور غزہ کے واقعات سے باخبر رکھا جا رہا ہے۔ امریکا کا اسرائیل اور فلسطینی رہنماوں سے رابطہ قائم ہے اور ہماری کوشش ہے کہ صورت حال مزید خراب نہ ہو۔
بیان میں مزید کہا گیا ہے کہ امریکا دونوں اطراف سے تشدد اور شدت پسندی کے خلاف ہے اور عام شہریوں کی ہلاکت کا سلسلہ بند ہونا چاہیے۔
یورپی یونین کی تشویش
یورپی یونین نے اسرائیل پر فلسطینیوں کے راکٹ حملوں کی مذمت کی ہے اور مشرقی یروشلم میں ہونے والی خونریزی بند کرنے کا مطالبہ کیا ہے۔
یورپی یونین کے خارجہ پالیسی کے چیف جوزپ بورل نے ایک بیان میں کہا،”اسرائیلی شہری آبادی پر غزہ سے راکٹ برسانے کا عمل ناقابل قبول ہے اور یہ مشرق وسطیٰ کے تنازعے کو مزید بڑھاوا دینے کا سبب بن رہا ہے۔"
ج ا/ ص ز (اے پی، اے ایف پی، روئٹرز، ڈی پی اے)