1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

غزہ میں حماس کا گارڈین لاء، خواتین کے لیے مشکلات کا باعث

7 نومبر 2021

ایک قانون کے تحت اگر کوئی بھی خاتون تنہا غزہ سے باہر جانا چاہے تو اسے اس کے لیے اپنے سرپرست مرد سے اجازت لینا ہوتی ہے۔ خواتین اور انسانی حقوق کی تنظیموں نے اسے امتیازی سلوک قرار دیا ہے۔

https://p.dw.com/p/42drw
Streit um so genannte auffällige Kleidung der Studentinnen an der Al-Aqsa Universität in Gaza
تصویر: DW

غزہ کی اسلامی عدالت کے ایک حکم کے تحت کوئی بھی عورت اپنے والی مرد یا گارڈین کی باضابطہ اجازت کے بغیر غزہ سے باہر نہیں جا سکتی۔ والی میں شوہر، بھائی، رشتہ دار اور بیٹا شامل ہو سکتے ہیں۔

غزہ میں نوجوانوں کا مستقبل، تاریک یا روشن

اس قانون میں حماس نے اب یہ ترمیم کر دی کہ کسی عورت کو بیرون غزہ کے سفر سے روکا جا سکتا ہے، اگر اس کا کوئی رشتہ دار مرد اُس سفر کے خلاف عدالت میں اپیل دائر کر دے۔ دوسری جانب غزہ کی کسی خاتون کو رشتہ دار مرد، شوہر یا بیٹے یا بھائی کو سفر سے روکنے کا اختیار حاصل نہیں ہے۔

Islamische Universität Gaza
غزہ سٹی کی ایک اور اعلیٰ تعلیم کی درسگاہ، اسلامی یونیورسٹیتصویر: picture-alliance/ dpa

عفاف النجار کو سفر سے روک دیا گیا

انیس سالہ فلسطینی لڑکی عفاف النجار کو ایک ترک یونیورسٹی میں تعلیم حاصل کرنے کا وظیفہ ملا ہے۔ وہ کمیونیکیشن میں تعلیم کے لیے ترکی جانا چاہتی ہیں تا کہ تعلیم مکمل کر کے صحافی بن سکیں۔ اس مقصد کے لیے ضروری سفری دستاویزات حاصل کرنے کے لیے انہوں نے پانچ سو ڈالر بھی خرچ  کیے۔

تاہم انہیں غزہ سے باہر جانے نہیں دیا گیا۔ ان کے راستے کی دیوار نا تو رافع کراسنگ پر تعینات مصری امیگریشن حکام تھے اور نہ ہی اسرائیلی اہلکار۔نوجوان لڑکی کو غزہ کی اسلامی عدالت کے قانون نے جکڑ لیا تھا۔ انہیں بیرونِ ملک کا سفر کرنے کی اجازت غزہ کی حکمران حماس کے اہلکاروں نے نہیں دی کیونکہ عفاف کے پاس گارڈین قانون کی ضروری دستاویز نہیں تھیں۔

فوری ایکشن نہ لیا گیا تو غزہ رہنے کے قابل نہیں رہے گا، اقوام متحدہ

عفاف النجار کو جب روکا گیا تو وہ زار و قطار رونے لگیں۔ ان کا کہنا ہے کہ جب حماس کے اہلکاروں نے انہیں روکا تو انہیں ایسا محسوس ہوا کہ تعلیم حاصل کرنے کا ان کا خواب ٹوٹ گیا۔ ان کو سفر سے روکنے کی درخواست ان کے والد نے دی تھی۔ عفاف النجار اپنی والدہ کے ساتھ رہتی ہیں کیونکہ ان کے والدین میں باقاعدہ علیحدگی ہو چکی ہے۔ حماس کی جانب سے عفاف کو روکنے پر کوئی تبصرہ نہیں کیا گیا۔

Streit um so genannte auffällige Kleidung der Studentinnen an der Al-Aqsa Universität in Gaza
غزہ کی الاقصیٰ یونیورسٹی کا اندرونی منظر، طلبہ یونیورسٹی میں کلاسیں شروع ہونے کے منتظرتصویر: DW

عفاف النجار کا عدالت سے رجوع

عفاف النجار نے انسانی حقوق کے مقامی گروپوں سے بھی مدد کی درخواست کی ہے۔ یہ تنظیمیں حماس کے خوف کی وجہ سے ایسا کرنے سے قاصر رہیں۔

ان ابتدائی کوششوں کے بعد عفاف نے بیرون ملک جانے سے روکنے کے فیصلے کے خلاف عدالت میں اپیل دائر کر دی۔ عدالت میں طلب کرنے پر ان کے والد عدالتی کارروائی میں شریک نہیں ہوئے۔

’پاکستان خود شیشے کے گھر میں رہتا ہے‘: اسرائیل کی تنقیدی ٹویٹ

عدالت نے سماعت ملتوی کر دی اور جج نے عفاف کو مشورہ بھی دیا کہ وہ بیرون غزہ جانے کے بجائے داخلی یونیورسٹیوں میں سے کسی ایک میں تعلیم کا سلسلہ شروع کر دیں مگر وہ ترکی جانے پر مصر ہیں۔

دوسری مرتبہ سماعت وکیل کے علیل ہونے کی وجہ سے مؤخر کر دی گئی۔ اب عفاف نے نئے وکیل سے رابطہ کیا ہے اور امکان ہے کہ تیسری پیشی پر عدالت انہیں ترکی جانے کی اجازت دے دے گی۔ ان کو حاصل وظیفے کی مدت رواں برس کے اختتام تک ہے۔

Gazastreifen Khan Younis al-Aqsa Universität
غزہ سٹی کی الاقصیٰ یونیورسٹی کا مرکزی گیٹتصویر: DW

انسانی حقوق کی تنظیم کا مطالبہ

امریکی شہر نیویارک میں قائم انسانی حقوق کی بین الاقوامی تنظیم ہیومن رائٹس واچ نے غزہ کی ناکہ بندی پر کئی مرتبہ گہری تشویش کا اظہار کیا ہے۔ اس نے حماس سے بھی کئی بار مطالبہ کیا کہ وہ غزہ کے شہریوں پر عائد پابندیوں کو نرم کرے۔ اس تنظیم نے خاص طور پر عفاف النجار کو تعلیم کے لیے بیرون ملک جانے کی اجازت دینے کی بھی اپیل کی ہے اور کہا کہ اس فلسطینی علاقے کی سپریم جوڈیشل کونسل عورتوں کے سفر اختیار کرنے پر عائد پابندیوں کی امتیازی پالیسی ترک کرے۔

فلسطینی علاقے غزہ میں حکومتی عمل داری قریب گزشتہ چودہ برسوں سے انتہا پسند عسکری تنظیم حماس نے سنبھال رکھی ہے۔ اس علاقے پر حماس کی قائم کردہ اسلامی عدالت نے کئی سخت قوانین کا بھی نفاذ کر رکھا ہے۔

ع ح/ ع ا (اے پی)