حماس کے زیر قبضہ اسرائیلی یرغمالیوں میں سے تین خواتین رہا
19 جنوری 2025یروشلم سے اتوار 19 جنوری کو ملنے والی رپورٹوں کے مطابق غزہ کی جنگ میں مقامی وقت کے مطابق آج ہی تین گھنٹے کی تاخیر سے لیکن قبل از دوپہر نافذالعمل ہو جانے والے فائر بندی معاہدے کے تحت فلسطینی عسکریت پسند تنظیم حماس کو ایک چھوٹے سے لیکن اولین گروپ کے طور پر تین ایسی یرغمالی خواتین کو رہا کرنا تھا، جن کے ناموں کی فہرست اس نے آج ہی ثالثوں کے ذریعے اسرائیلی حکومتی نمائندوں کے حوالے کی تھی۔
غزہ جنگ بندی معاہدے پر تاخیر سے لیکن عمل درآمد شروع ہو گیا
یہ تینوں خواتین اسرائیلی شہری ہیں اور ان تقریباﹰ ڈھائی سو افراد میں شامل تھیں، جنہیں سات اکتوبر 2023ء کو اسرائیل میں کیے گئے دہشت گردانہ حملے کے دوران حماس کے جنگجوؤں نے یرغمال بنا لیا تھا۔ اس حملے میں تقریباﹰ 1200 افراد مارے گئے تھے جبکہ واپس جاتے ہوئے حماس کے عسکریت پسند یرغمالیوں کو بھی اپنے ساتھ غزہ پٹی لے گئے تھے۔
یہ تینوں اسرائیلی یرغمالی خواتین 15 ماہ سے بھی زیادہ کا عرصہ حماس کی حراست میں گزارنے اور اپنی رہائی کے بعد غزہ میں بین الاقوامی ریڈ کراس کے نمائندوں کے حوالے کر دی گئی تھیں۔ ریڈ کراس کے مطابق یہ تینوں جسمانی طور پر اچھی حالت میں ہیں۔
اسرائیلی جیلوں سے نوے فلسطینی قیدیوں کی رہائی
غزہ میں ریڈ کراس کے نمائندوں نے رہا کی گئی تینوں خواتین کو وہاں اسرائیلی فوج کے حوالے کر دیا، جس نے بعد ازاں تصدیق کر دی کہ رہائی پانے والی تینوں سابقہ یرغمالی خواتین اسرائیلی دفاعی افواج کی حفاظت میں ہیں۔
اس کے کچھ ہی دیر بعد اتوار کی شام اسرائیلی حکومت نے بھی باقاعدہ طور پر اعلان کر دیا کہ حماس نے ان تینوں یرغمالی خواتین کو رہا کر دیا ہے، جن کے ناموں کی فہرست حماس نے آج ہی قبل از دوپہر اسرائیل کو بالواسطہ طور پر مہیا کی تھی۔
اسرائیلی حکومت کی طرف سے کہا گیا کہ رہائی پانے والی تینوں خواتین اب واپس اسرائیل پہنچ گئی ہیں۔
اسی دوران حماس کی طرف سے یہ بھی بتایا گیا کہ اس کی طرف سے رہا کردہ تینوں یرغمالی خواتین کے بدلے اسرائیلی حکام مختلف جیلوں سے آج ہی تقریباﹰ 90 فلسطینی قیدیوں کو رہا کر رہے ہیں۔
اسرائیلی جیلوں میں قید سرکردہ ترین فلسطینیوں میں کون کون شامل؟
رہائی پانے والی تین یرغمالی خواتین
رومی گونن
رومی گونن شمالی اسرائیل کی رہنے والی ہیں اور ان درجنوں اسرائیلی یرغمالیوں میں شامل تھیں، جنہیں حماس کے جنگجوؤں نے سات اکتوبر 2023ٔ کے روز سپرنووا نامی میوزک فیسٹیول کے اجتماع پر حملہ کر کے اپنے قبضے میں لے لیا تھا۔ حماس کے اس دہشت گردانہ حملے میں اس میوزک فیسٹیول کے شرکاء میں سے 364 موقع پر ہی مارے گئے تھے۔
اس حملے کے دوران رومی نے وہاں سے اپنی گاڑی میں سوار ہو کر فرار ہونے کی کوشش کی تھی اور پریشانی میں اپنی والدہ کو فون بھی کیا تھا۔ تاہم بعد ازاں رومی کی کار میوزک فیسٹیول کے قریب ہی ایک جگہ سے خالی ملی تھی اور پھر موبائل فون سگنل سے پتہ چلا تھا کہ رومی کا فون غزہ پٹی میں تھا۔
غزہ سیزفائر: جنگ کے بعد یورپی یونین کیا کردار ادا کر سکتی ہے؟
ایمیلی داماری
رہائی پانے والی دوسری اسرائیلی یرغمالی خاتون ایمیلی داماری کے والد اسرائیلی اور والدہ برطانوی شہری ہیں۔ ایمیلی کی والدہ برطانیہ سے اسرائیل منتقل ہو گئی تھیں اور ایمیلی اسرائیل ہی میں پید اہوئی تھیں۔
ایمیلی کفر غزہ (Kfar Aza) نامی اسی اسرائیلی بستی میں بڑی ہوئی تھیں، جو اسرائیل کے جنوبی سرحدی علاقے میں غزہ پٹی کے فلسطینی علاقے کے پاس ہی واقع ہے اور جہاں میوزک فیسٹیول پر حماس کے عسکریت پسندوں نے حملہ کیا تھا۔
ایمیلی کفر غزہ نامی کمیونٹی پر حماس کے حملے کے وقت اپنے گھر پر تھیں اور حماس کے جنگجو ان کے گھر میں گھس کر انہیں اغوا کر کے اپنے ساتھ لے گئے تھے۔
غزہ میں ہلاکتوں کی تعداد ریکارڈ سے 40 فیصد زیادہ، لینسیٹ
ڈورون اشٹائن بریشر
حماس کی طرف سے آج رہا کردہ تیسری اسرائیلی یرغمالی خاتون کا نام ڈورون اشٹائن بریشر ہے اور وہ پیشے کے اعتبار سے ایک ویٹرنری نرس ہیں۔ سات اکتوبر کے حملے کے دن انہوں نے اپنے والدین کے نام ایک موبائل فون میسج میں اطلاع دی تھی کہ انہیں اغوا کر لیا گیا ہے۔
ڈورون اشٹائن بریشر کے پاس اسرائیلی کے علاوہ رومانیہ کی شہریت بھی ہے اور وہ دو دیگر اسرائیلی یرغمالیوں کے ساتھ ایک ایسی ویڈیو میں بھی دیکھی جا سکتی تھیں، جو حماس نے گزشتہ برس جنوری میں جاری کی تھی۔
م م / ا ا (روئٹرز، اے ایف پی، اے پی)