فاٹا کے سرکاری اسکولوں کے ہزارہا اساتذہ سراپا احتجاج
29 اپریل 2016اس احتجاج کے باعث فاٹا اور نیم قبائلی علاقوں کے تعلیمی اداروں میں زیر تعلیم گیارہ لاکھ بچوں کا قیمتی تعلیمی وقت ضائع ہو رہا ہے۔ ان علاقوں کے تعلیمی اداروں میں اساتذہ کی تعداد 35 ہزار سے زائد ہے۔ ان اساتذہ کا بنیادی مطالبہ ہے کہ انہیں بھی خیبر پختونخوا کے اساتذہ کی طرح اپ گریڈ کیا جائے۔
جب اس سلسلے میں ڈوئچے ویلے نے فاٹا ٹیچرز ایسوسی ایشن کے ترجمان سرور خان سے رابطہ کیا، تو ان کا کہنا تھا، ’’فاٹا کے اساتذہ گزشتہ چار سال سے اپنے جائز حقوق کا مطالبہ کر رہے ہیں۔ ہمارا مطالبہ ہے کہ جس طرح خیبر پختونخوا میں چار سال قبل عوامی نیشنل پارٹی کی حکومت نے اساتذہ کی اپ گریڈیشن کی منظوری دی تھی، اسی طرح قبائلی علاقوں کے اسکولوں کے اساتذہ کی اسامیوں کو بھی اپ گریڈ کیا جائے۔ ہمیں ہمارے حقوق سے محروم کر کے چار سال جونیئر کر دیا گیا ہے۔‘‘
سرور خان کا مزید کہنا تھا کہ گزشتہ سال دسمبر میں جب ان اساتذہ نے اسلام آباد میں احتجاج کیا، تو فاٹا سے تعلق رکھنے والے ارکان قومی اسمبلی اور سینیٹ نے اساتذہ کے احتجاجی کیمپ میں آ کر یقین دلایا تھا کہ احتجاجی اساتذہ کے واپس ان کے گھروں میں پہنچنے سے پہلے ہی ان کے مطالبات کی منظوری کا اعلامیہ جاری کر دیا جائے گا۔ انہوں نے کہا، ’’اس وعدے کو بھی ایک سال ہو گیا ہے۔ اب ہمیں اعتماد ہی نہیں رہا۔ ہم اس وقت تک احتجاج کریں گے، جب تک ہمیں نوٹیفیکیشن لا کر ہاتھ میں نہیں تھما دیا جاتا۔ ہمیں وفاقی حکومت نے احتجاج اور اسکول بند کرنے پر مجبور کیا ہے۔ ہم نہیں چاہتے کہ دہشت گردی کے شکار علاقوں میں اسکول بند کر کے بچوں کو حصول تعلیم سے روکا جائے۔ لیکن اب ہم اس وقت تک یہ اسکول بند رکھیں گے، جب تک کہ قبائلی علاقوں کے سرکاری اسکولوں میں پڑھانے والے 35 ہزار اساتذہ کی اپ گریڈیشن کا اعلامیہ جاری نہیں کیا جاتا۔‘‘
پاکستان کے قبائلی علاقوں میں دہشت گرد آٹھ سو اسکولوں کو بم دھماکوں سے تباہ کر چکے ہیں۔ ان اسکولوں کی تعمیر نو اور بحالی کے لیے متعدد غیر ملکی ادارے بھی تعاون کر رہے ہیں۔ دوسری جانب مہمند ایجنسی سے تعلق رکھنے والے آل فاٹا ٹیچرز ایسوسی ایشن کے عہدیداروں عبد الہادی اور بشیر گل کا کہنا تھا، ’’چار ماہ قبل بھی ہم سے مسائل کے حل کے وعدے کیے گئے تھے۔ لیکن یہ وعدے پورے نہیں کیے گئے۔‘‘ ان دونوں شخصیات کا کہنا تھا کہ اب احتجاجی اساتذہ کے نمائندے تمام قبائلی ایجنسیوں کے ہیڈکوارٹرز میں جاکر آپس میں صلاح مشورے کے بعد ہی مستقبل کا لائحہ عمل طے کریں گے۔‘‘
قبائلی علاقے براہ راست وفاقی حکومت کے زیر انتظام ہیں، جن کی نگرانی وفاق کے نمائندے کے طور پر خیبر پختونخوا کے گورنر کرتے ہیں۔ گورنر نے حال ہی میں بھاری رقوم خرچ کے کے میڈیا میں ایک تشہیری مہم کے ذریعے قبائلی علاقوں میں تعلیمی ایمرجنسی کے نفاذ کا اعلان کیا تھا۔ اس اقدام کا مقصد فاٹا میں جاری تعلیمی سال کے دوران ڈیڑھ لاکھ بچوں کو اسکولوں میں داخل کرانے سمیت تین سال کے دوران چار لاکھ بچوں کو اسکولوں میں لانا ہے۔ تاہم اساتذہ کی ہڑتال نے نئے تعلیمی سال کے آغاز پر ہی حکومتی ہدف کو ناکامی سے دو چار کر دیا ہے۔
قبائلی علاقوں خیبر ایجنسی کے علاوہ شمالی اور جنوبی وزیر ستان میں بھی دہشت گردوں کے خلاف جاری فوجی آپریشن کی وجہ سے لاکھوں افراد نقل مکانی کر کے صوبے خیبر پختونخوا کے مختلف شہروں میں رہائش پذیر ہیں۔ بے گھر ہونے کی وجہ سے ان خاندانوں کے بچوں کا تعلیمی سلسلہ منقطع ہو چکا ہے جبکہ بڑی تعداد میں اسکول بھی تبا ہ ہو چکے ہیں۔
قبائلی علاقے خیبر ایجنسی کے سماجی کارکن شیر خان آفرید ی نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ’’حکومت بحالی کے لیے وہ اقدامات نہ کر سکی، جو وقت کا اہم تقاضا تھے۔ تعلیمی اداروں کی حالت بھی بہت بری ہے۔ ہونا تو یہ چاہیے کہ حکومت ان حالات میں قبائلی علاقوں میں عوام کی خدمت کرنے، بالخصوص بچوں کو تعلیم دلانے والوں کے لیے خصوصی سہولیات اور مراعات کا اعلان کرتی۔ لیکن وفاقی حکومت اس سمت کے برعکس جا رہی ہے، جس کی وجہ سے قبائلی علاقوں کے عوام میں بے چینی بڑھ رہی ہے اور اب وہ وفاق کی بجائے خیبر پختونخوا کے ساتھ انضمام کا مطالبہ کر رہے ہیں۔‘‘
فاٹا سیکرٹریٹ کے ایک اعلیٰ افسر نے اپنا نام خفیہ رکھنے کی شرط پر ڈوئچے ویلے کو بتایا کہ یہ ادارہ کئی بار متعلقہ وزارت کو تعلیمی اداروں کی بحالی، تعمیر نو اور اساتذہ کے مسائل حل کرنے کے بارے میں لکھ چکا ہے۔ ’’اب یہ ان (وزارت) کی ذمہ داری ہے کہ ان مسائل کے حل کے لیے وہ کب اور کیا اقدمات کرتے ہیں۔‘‘