1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

فرانس میں قتل عام: نواسی سالہ نازی ملزم پر فرد جرم عائد

کرسٹیان اِگناٹسی / مقبول ملک10 جون 2014

نازیوں کے زیر قبضہ فرانس میں اورادُور کے مقام پر قتل عام کے سات عشرے بعد جرمن شہر کولون کے رہنے والے ایک 89 سالہ مبینہ ملزم پر فرد جرم عائد کر دی گئی ہے۔ قتل عام کے وقت ملزم کی عمر 19 سال تھی۔

https://p.dw.com/p/1CFNt
جنگ کے بعد اس گاؤں کی باقیات کو اسی طرح محفوظ کر لیا گیا تھاتصویر: picture-alliance/dpa

یہ بات غیر یقینی ہے کہ آج اس مبینہ ملزم کے خلاف کوئی مقدمہ چلایا جا سکتا ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ 70 سال قبل جب 10 جون 1944ء کے روز نازیوں کے زیر قبضہ فرانس میں اتحادی فوجی دستوں کے نارمنڈی کے ساحلوں پر اترنے کے چار دن بعد یہ قتل عام ہوا تھا، تب یہ ملزم نوجوان تھا اور اس وقت کے قانون کے مطابق اسے اس جرم پر نوجوانوں سے متعلق قانون کے تحت ہی سزا سنائی جا سکتی تھی۔

SS-Untersturmführer Heinz Barth
اورادُور میں قتل عام کے مرتکب نازی دستوں کی ایس ایس رجمنٹ کے تین ارکان، فائل فوٹوتصویر: picture alliance/ADN Zentralbild

مقبوضہ فرانس میں اس قتل عام کی مرتکب نازی فوج کے ایس ایس دستوں کی ایک ایسی رجمنٹ ہوئی تھی، جو نارمنڈی میں اتحادی دستوں کی آمد کے بعد جنوب مغربی فرانس سے پیچھے ہٹتی ہوئی اور مارچ کرتے کرتے اورادُور سُور گلان Oradour-sur-Glane نامی گاؤں میں پہنچی تھی۔

اس گاؤں میں 120 فوجیوں پر مشتمل اس نازی جرمن دستے نے گھر گھر تلاشی کے دوران ہتھیار جمع کرنے کے نام پر وہاں کے تمام مردوں کو ایک مرکزی چوک میں اکٹھا کر لیا تھا اور خواتین اور بچوں کو مقامی گرجا گھر میں بھیج دیا تھا۔ بعد ازاں مردوں کو فائرنگ کر کے ہلاک کر دیا گیا تھا جبکہ اس چرچ کو، جہاں عورتیں اور بچے پناہ گزین تھے، پہلے آگ لگا دی گئی تھی اور پھر چرچ کی عمارت پر اندھا دھند فائرنگ کرنے کے علاوہ گرینیڈ بھی پھینکے گئے تھے۔

سات عشرے قبل پیچھے ہٹتے ہوئے ایس ایس کے نازی دستوں نے یہ قتل عام کیوں کیا، یہ بات آج تک واضح نہیں۔ تاہم یہ بات یقینی ہے کہ تب اس فرانسیسی گاؤں کے کم از کم 642 رہائشیوں کو قتل کر دیا گیا تھا اور محض چند افراد ہی زندہ بچے تھے۔

Gauck und Hollande in Oradour-sur-Glane 04.09.2013
جرمن صدر گاؤک کی فرانسیسی ہم منصب اولانڈ کے ساتھ گزشتہ برس اس گاؤں کے ایک تاریخی دورے کے دوران مقامی چرچ میں لی گئی ایک تصویرتصویر: REUTERS

منگل دس جون کو اس قتل عام کے 70 برس پورے ہونے کے موقع پر کولون میں وفاقی دفتر استغاثہ کی طرف سے بتایا گیا کہ اس قتل عام کے سلسلے میں ایس ایس رجمنٹ کے ایک سابق رکن کے خلاف برسوں سے جو چھان بین جاری تھی، وہ مکمل ہو گئی ہے۔ وفاقی جرمن صوبے نارتھ رائن ویسٹ فیلیا کے نازی دور میں شدید نوعیت کے جرائم کی تحقیق کرنے والے مشاورتی مرکز کے سربراہ اور دفتر استغاثہ کے سینئر اہلکار آندریاس برینڈل نے ڈوئچے ویلے کو بتایا، ’’ملزم ویرنر کی عمر اس وقت 89 سال ہے۔ اس پر فرد جرم عائد کر دی گئی ہے۔ اورادُور میں SS دستوں کے ایک 19 سالہ رکن کے طور پر اس نے 25 افراد کو قتل کیا تھا اور 617 واقعات میں وہ عام شہریوں کے قتل میں مجرمانہ مدد کا مرتکب ہوا تھا۔‘‘

چونکہ اس قتل عام کے وقت مبینہ ملزم کی عمر 19 سال تھی، لہٰذا اس بارے میں فیصلہ اب کولون کی ایک صوبائی عدالت کرے گی کہ آیا Werner C. کے خلاف مقدمہ چلایا جانا چاہیے۔ وکیل صفائی کے بقول اس امر کا کوئی عینی شاہد نہیں کہ ملزم قتل عام کا مرتکب ہوا تھا۔ اس کے علاوہ نازی فورسز کے ایس ایس دستوں میں کسی کے لیے ممکن ہی نہیں تھا کہ وہ اپنے کسی سینئر افسر کی حکم عدولی کرے۔

جون 1944ء میں فرانس میں نازیوں کے ہاتھوں اس قتل عام کے مبینہ ملزم کے حوالے سے اب استغاثہ اور دفاع دونوں کو ہی اس سلسلے میں کولون کی ایک عدالت کے فیصلے کا انتظار ہے کہ آیا ملزم کے خلاف مقدمے کی باقاعدہ کارروائی شروع کی جانی چاہیے۔

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید