1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

فرانس نے بھی شام پر فضائی حملے شروع کر دیے

مقبول ملک27 ستمبر 2015

شام اور عراق میں دہشت گرد تنظیم اسلامک اسٹیٹ کے ٹھکانوں پر فضائی حملوں میں اب فرانس بھی شامل ہو گیا ہے۔ اب تک فرانسیسی طیارے صرف عراق میں حملے کر رہے تھے لیکن اتوار کے روز پہلی بار شام میں بھی حملے کیے گئے۔

https://p.dw.com/p/1GeD4
Symbolbild Luftangriffe der USA gegen IS
تصویر: picture-alliance/Us Air Force/M. Bruch

فرانسیسی دارالحکومت سے اتوار ستائیس ستمبر کے روز موصولہ نیوز ایجنسی اے ایف پی کی رپورٹوں میں پیرس میں ملکی صدر فرانسوا اولانڈ کے دفتر کے جاری کردہ ایک بیان کا حوالہ دیتے ہوئے کہا گیا ہے کہ آج اتوار کو ملکی جنگی طیاروں نے پہلی مرتبہ شام کے ریاستی علاقے میں اسلامک اسٹیٹ یا دولت اسلامیہ کے ٹھکانوں کو اپنے حملوں کا نشانہ بنایا۔

فرانسیسی فضائیہ گزشتہ قریب تین ہفتوں سے شام میں داعش کے ٹھکانوں کی جاسوسی جاری رکھے ہوئے تھی۔ صدارتی دفتر کے بیان کے مطابق آج کیے جانے والے حملوں میں ان ٹھکانوں کو نشانہ بنایا گیا، جن کی نشاندہی جاسوس پروازوں کے نتیجے میں کی گئی تھی۔ یہ فضائی جاسوسی آٹھ ستمبر کو شروع کی گئی تھی۔

بیان کے مطابق، ’’فرانسیسی طیاروں سے یہ حملے خطے میں پیرس کے اتحادیوں کے ساتھ مربوط تعاون کے نتیجے میں کیے گئے اور فرانس آئندہ بھی ہر اس وقت ایسے حملے کرے گا جب اس کی قومی سلامتی خطرے میں ہو گی۔‘‘

فرانس نے اسی مہینے اپنے ایک سرکاری اعلان میں کہا تھا کہ پیرس کے فوجی دستے شام میں زمینی کارروائیوں میں کوئی حصہ نہیں لیں گے لیکن اسلامک اسٹیٹ کی طرف سے لاحق خطرات کا مقابلہ کرنے کے لیے کیے جانے والے فرانسیسی فضائی حملوں کی وجہ پیرس کی ’اپنے دفاع کی جائز خواہش‘ ہو گی۔

Paris Hollande PK Anti ISIS Bombardements
جب بھی فرانس کی قومی سلامتی خطرے میں ہوئی، حملے کیے جائیں گے، صدر اولانڈتصویر: Reuters/C. Platiau

اس سے قبل فرانسیسی جنگی طیاروں کی طرف سے ہمسایہ ملک عراق میں دولت اسلامیہ کے خلاف فضائی حملے کافی عرصے سے کیے جا رہے ہیں لیکن شام میں یہ پہلا موقع ہے کہ پیرس نے اسلامک اسٹیٹ کے اہداف کو نشانہ بنایا ہے۔

صدر اولانڈ کے دفتر سے جاری کردہ بیان میں کہا گیا ہے، ’’شامی تنازعے کی وجہ سے پیدا ہونے والے انتشار کا جامع جواب دیا جانا چاہیے۔ شہری آبادی کو ہر قسم کی اس خونریزی سے بچایا جانا چاہیے، جو چاہے دولت اسلامیہ کی طرف سے کی جائے یا دیگر دہشت گرد گروپوں کی طرف سے یا پھر شامی صدر بشار الاسد کے دستوں کی طرف سے قاتلانہ بمباری کی صورت میں۔‘‘

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید