فرانسیسی صدر پر خوردبرد کے الزامات
3 جون 2010ان الزامات کی بنیاد یورپی ملک لکسمبرگ کی پولیس کی ایک رپورٹ کو بنایا گیا ہے۔ فرانسیسی پارلیمان کے سوشسلٹ ارکان، مانوئیل والس اور ہارلیم ڈیسیئر نے فرانسیسی محکمہء انصاف سے مطالبہ کیا ہے کہ لکسمبرگ پولیس کی اس رپورٹ کی روشنی میں فرانس میں مزید تفتیش کی جانا چاہئے۔
ان منتخب سیاسی نمائندوں نے، جن کی تعداد تین ہے اور جو تینوں ہی سوشلسٹ پارٹی کے رکن ہیں، اس رپورٹ کی روشنی میں صدر سارکوزی پر الزام عائد کیا ہے کہ موجودہ فرانسیسی صدر نے، جب وہ وزیر اعظم بالادُور کی کابینہ میں بجٹ کے وزیر تھے، لکسمبرگ میں ہائینے نامی ایک ایسی کمپنی کے قیام کے عمل کی نگرانی کی تھی، جس نے 1995 میں لکسمبرگ سے یہ رقوم اس لئے فرانس منتقل کی تھیں کہ انہیں انتخابی مہم کے دوران استعمال کیا جا سکے۔ اسی عرصے میں نکولا سارکوزی ایڈورڈ بالادُور کی صدارتی انتخابی مہم کے ترجمان بھی بنا دئے گئے تھے۔
میڈیا پارٹ نامی ایک نیوز ویب سائٹ نے اس حوالے سے صدر نکولا سارکوزی کے خلف ممکنہ طور پر استعمال ہو سکنے والی کئی معلومات تو شائع کی ہیں تاہم اس بارے میں سارکوزی کے خلاف مالی بدعنوانی کے کوئی ٹھوس شواہد مہیا نہیں کئے۔
رپورٹ میں ہائینے نامی کمپنی کا ذکر کرتے ہوئے تفتیش کاروں کی طرف سے اسلحے کی تجارت سے متعلق جن معاہدوں کا تذکرہ سننے میں آیا ہے، ان میں مبینہ طور پر ہتھیاروں کی فروخت کا ایک ایسا سمجھوتہ بھی ہے، جو اب تک غیر واضح تفصیلات کے مطابق 2002ء میں پاکستان میں ایک مسلح حملے میں گیارہ فرانسیسی انجینئرز کے قتل کی وجہ بنا تھا۔
پیرس سے موصولہ رپورٹوں کے مطابق مئی 2002 میں کراچی میں ایک بم حملے میں جو فرانسیسی انجینئرز مارے گئے تھے، وہ پاکستان میں آبدوزیں تیار کرنے کے ایک منصوبے پر کام کر رہے تھے۔ تب اس دور کے فرانسیسی صدر یآک شیراک نے مبینہ طور پر چند پاکستانی افسران کو اسلحہ کی تجارت میں طے شدہ کمیشن فراہم کئے جانے سے انکار کردیا تھا۔ اس حملے کی چھان بین کرنے والے ایک فرانسیسی جج کی اب رائے یہ ہے کہ کراچی میں فرانسیسی انجینئرز پر یہ حملہ اسی مالی عدم ادائیگی کا بدلہ لینے کے لئے کروایا گیا تھا۔
فرانسیسی صدر نکولا سارکوزی نے اپنے خلاف مبینہ رشوت ستانی کے ان تمام الزامات کو مسترد کر دیا ہے، جو لکسمبرگ پولیس کی رپورٹ کے پس منظر میں اب بالواسطہ طور پر ان پر لگائے جا رہے ہیں۔ پیرس میں ایک حکومتی ترجمان لُوک شاتیل نے ان الزامات کو افسانوں کا مجموعہ قرار دیا ہے۔ ان کے بقول ہتھیاروں کی فروخت کے جن معاہدوں کا تذکرہ اب سننے میں آ رہا ہے، وہ 1990ء کے اوائل میں طے پائے تھے جبکہ وزیر اعظم بالادُور کی حکومت 1993ء میں قائم ہوئی تھی۔
رپورٹ: شادی خان سیف
ادارت: مقبول ملک