فضل الرحمٰن کا بیان: پنڈی کی خوشنودی حاصل کرنے کی کوشش قرار
19 اپریل 2021مولانا فضل الرحمٰن کے بیان کے بعد پاکستان کے سوشل میڈیا پر ایک گرما گرم بحث چھڑ گئی ہے اور پی ٹی ایم کے حامی مولانا فضل الرحمٰن کی سابق آئی ایس آئی چیف جنرل حمید گل کے ساتھ لی گئی تصاویر کو شیئر کر کے ان پر تنقید کے نشتر چلا رہے ہیں۔
مولانا فضل الرحمٰن کی جانب سے ’سیاسی قوت کا مظاہرہ‘
سوداگر مولوی
پی ٹی ایم کے رہنما ڈاکٹر سید عالم مسعود نے مولانا فضل الرحمٰن کے بیان پر سخت رد عمل دیتے ہوئے ان کو 'سوداگر مولوی‘ قرار دیا۔ ان کا کہنا تھا کہ لوگوں کی غلط فہمی ہے کہ مولانا فضل الرحمٰن کوئی اینٹی ایسٹیبلشمنٹ آدمی ہیں۔ ڈی ڈبلیو سے بات کرتے ہوئے ڈاکٹر سید عالم مسعود نی کہا،"ٹی ایل پی، جس نے املاک کو نقصان پہنچایا، پولیس والوں کو اغوا کیا، اس کی مولانا فضل الرحمٰن حمایت کرتے ہیں اور پی ٹی ایم، جس نے کبھی کوئی گملا بھی نہیں توڑا اور ہمیشہ پرامن رہی، اسے یہ دہشت گردی اور انتہا پسند قرار دیتے ہیں۔‘‘
انہوں نے مزید کہا کہ، ''فضل الرحمٰن کا اصل مسئلہ یہ ہے کہ وہ ایسٹبلشمنٹ سے کہتے ہیں کہ کالعدم قبائلی علاقوں اور افغانستان میں خون خرابے میں انہوں نے پنڈی کا ساتھ دیا لیکن پنڈی نے اقتدار ایک کرکٹر کو دے دیا۔ یہ مولانا ووٹ پختونوں سے لیتا ہے اور غلامی کسی اور کی کرتا ہے۔ انہوں نے پختونوں کو بھی بیچا ہے اور مذہب کو بھی بیچا ہے یہ بہت بڑے سوداگر ہیں۔‘‘
ڈاکٹر سید عالم محسود کا کہنا تھا کہ پوری پختون قوم دیکھ رہی ہے کہ مریم نواز شریف اور نواز شریف اس بیان پر کیا رد عمل دیتے ہیں۔
بیان کی مذمت
عوامی نیشنل پارٹی کی سابق رہنما و رکن قومی اسمبلی بشریٰ گوہر نے مولانا فضل الرحمٰن کے بیان کی پرزور مذمت کی ہے۔ انہوں نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، "ایک پر امن تنظیم کے خلاف زہر اگل کے مولانا فضل الرحمٰن نے ان پشتونوں کی توہین کی ہے جنہوں نے اپنی جان کی قربانیاں دیں، دہشتگردی کا شکار ہوئے اورجو آج بھی دہشت گردی اور انتہاپسندی کے خلاف جدوجہد کر رہے ہیں۔‘‘
فضل الرحمن نے دھرنے سے کیا کھویا، کیا پایا؟
پنڈی والوں کی خوشنودی حاصل کرنے کی کوشش
بشریٰ گوہر نے یہ بھی کہا، "فضل الرحمٰن نے ریاست کو یہ اشارہ دیا ہے کہ وہ ان کی خدمت کرنے کے لئے تیار ہے اور خطے میں نئی پراکسی جنگ کی صورت میں ان کی خدمات حاضر ہیں۔ وہ ملا ملٹری الائنس کی بحالی کے لیے خواہاں ہیں۔ یہ پہلا موقع نہیں ہے کہ انہوں نے اپنی خدمات پیش کیں بلکہ محسن داوڑ کو پی ڈی ایم سے نکال کر سلیکٹرز کو یہ پیغام دیا کہ وہ ان کے خادم ہیں۔‘‘
سیاسی رقابت
پاکستان کی سیاست پر گہری نظر رکھنے والے معروف صحافی و تجزیہ نگار رحیم اللہ یوسفزئی کا کہنا ہے کہ فضل الرحمٰن کی طرف سے ایسا بیان آنا حیران کن ہے۔ انہوں نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، "پی ٹی ایم کے آنے سے مولانا کی جماعت فاٹا میں کچھ نشستوں پر انتخابات ہاری۔ اس کے علاوہ عمران مخالف ووٹ کے تقسیم ہونے سے بھی جے یو آئی ایف کا نقصان ہوا۔ پی ٹی ایم سے مولانا فضل الرحمٰن کو سیاسی طور پر نقصان ہوا ہے لیکن اس قدر سخت بیان کا آنا حیران کن ہے، جس پر محمود خان اچکزئی کی پارٹی ممکنہ طور پر مولانا سے اس کی وضاحت بھی طلب کرے گی۔‘‘
مساجد و مدارس کے حوالے سے بل: مذہبی تنظیموں کی تنقید
ایسٹیبلشمنٹ سے رعایت آسان نہیں
رحیم اللہ یوسفزئی کا یہ بھی کہنا تھا کہ مولانا ایسٹیبلشمنٹ سے رعایت حاصل نہیں کر سکتے۔ "ہر مرتبہ انتخابات سے پہلے مولانا یہ خیال کرتے ہیں کہ شاید اس مرتبہ کم از کم خیبرپختونخواہ میں جے یو آئی ف کی حکومت بن جائے گی لیکن جب یہ حکومت نہیں بنتی تو مولانا ایسٹیبلشمنٹ پر الزام لگا دیتے ہیں۔‘‘ یوسفزئی کے مطابق صرف پی ٹی ایم کے خلاف بیان داغنے سے مولانا کو کوئی رعایت نہیں ملے گی کیونکہ ایک طرف مولانا پی ٹی ایم کے خلاف بیان دے رہے ہیں جو اینٹی ایسٹیبلشمنٹ ہےاور دوسری طرف نواز شریف کے ساتھ ہیں جن کی پالیسی بھی ایسٹیبلشمنٹ مخالف ہے۔
نا مناسب بیان
پی ڈی ایم میں شامل کچھ جماعتیں بھی مولانا کے اس بیان کو مناسب نہیں گردانتی۔ پی ڈی ایم کی رکن جماعت نیشنل پارٹی کے سینیٹر اکرم بلوچ نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، "دہشت گردی ایک سنگین الزام اور مولانا کو اس طرح کا بیان نہیں دینا چاہئے تھا۔‘‘
ناراض ارکان کا فضل الرحمٰن کے خلاف مورچہ
ڈی ڈبلیو نے متعدد مرتبہ جمعیت علماء اسلام فضل الرحمٰن گروپ کے ارکان سے رابطہ کرنے کی کوشش کی لیکن انہوں نے فون ریسیو نہیں کیا۔
کئی ناقدین کا خیال ہے کہ مولانا کے اس بیان سے پی ڈی ایم کمزور ہو گی اور اگر مسلم لیگ نون کی رہنما مریم نواز شریف نے اس پر کوئی وضاحتی بیان نہیں دیا، تو پھر پی ڈی ایم کو ملک کے پختون علاقوں میں بڑے پیمانے پر غیر مقبولیت حاصل ہو گی۔