فلسطینی انتفادہ کے دس سال
28 ستمبر 2010اسرائيل اور فلسطينی تنظيم آزادی پی ايل او نے سن 1993ء ہی ميں اوسلو ميں اپنے باہمی تنازعے کو پرامن طور پر حل کرنے پر اتفاق کر ليا تھا اور درحقيقت وہاں جو سمجھوتے کئے گئے تھےاُن کی بنياد پرسن 2000ء کے موسم خزاں ميں فلسطينيوں کو اگرايک اپنا آزاد ملک نہيں تو کم ازکم بڑی حد تک خودمختاری مل جانا چاہيئے تھی تاہم صورتحال اس کے برعکس تھی۔
اسی سال ستمبرکے آخرميں دريائے اردن کے مغربی کنارے اورغزہ کی پٹی کے علاقے ميں دوسری فلسطينی بغاوت يعنی ’انتفادہ‘ شروع ہو گئی جس سے تشدد کا ايک ايسا طويل سلسلہ شروع ہوگيا، جو اس علاقے ميں اب تک نہيں ديکھا گيا تھا۔ اس کے چھ برسوں کے دوران 6000 ہزار سے زائد فلسطينی اور تقريباً 1000 اسرائيلی ہلاک ہوئے۔
اس کے نتيجے ميں اسرائيل اور فلسطينيوں کے درميان اتنے سخت محاذ بن گئے کہ اُن کی شدت ابھی تک باقی ہے۔ اس فلسطينی بغاوت کو الاقصٰی انتفادہ کا نام دیا گیا، غالباً اس وجہ سے کيونکہ مبينہ طور پراس کے پھوٹ پڑنے کی وجہ اُس وقت کے اسرائيلی اپوزيشن رہنما اوربعد ميں وزيراعظم بننے والے آزيل شارون کے مسجد اقصٰی کا دورہ تھا۔
مسجد اقصٰی، اسلام ميں تيسرا مقدس ترين مقام ہے۔ سن1967ء ميں اس پراسرائيل کے قبضے کے بعد سے يہ مقام مسلسل تنازعے کا باعث ہے کيونکہ يہاں کبھی ايک يہودی عبادت خانہ بھی تھا اور اس لئے يہ يہوديوں کا مقدس ترين مقام شمار ہوتا ہے۔ قوم پرست اسرائيليوں نے ہیکل سليمانی پر ہميشہ اپنا حق جتايا تھا اور اس لئے مسلمانوں کو خدشہ تھا کہ شارون کے وہاں کے دورے کا مطلب ممکنہ طور پر اس پر اسرائيلی قبضے کی تياری تھی۔
شارون کے دورے کے محض چند گھنٹوں بعد ہی پہلے مظاہرے شروع ہوگئے اور وہ جلد ہی فلسطينی علاقوں ميں پھيل گئے۔ اس کے کئی ہفتے بعد ہی وزیراطلاعات عماد فالوجی نےاعلان کیا کہ يہ دوسری فلسطينی بغاوت يا انتفادہ شارون کی وجہ سے شروع نہيں ہوئی تھی۔
انہوں نے کہا تھا : ’جو يہ سمجھتا ہے کہ انتفادہ شارون کے الاقصٰی مسجد جانے کی وجہ سے شروع ہوئی ہے، وہ غلطی پر ہے۔‘ دراصل يہ صرف آگ کو بھڑکانے کی صرف ايک چنگاری تھی جس نے فلسطينی قوم کے صبر کا پيمانہ لبريز کرديا۔ انتفادہ کی تياری اُسی وقت شروع کردی گئی تھی، جب صدر کيمپ ڈيوڈ ميں صدر کلنٹن کی تجاويز کے خلاف مزاحمت اور امريکی شرائط کو امريکی دارالحکومت ہی ميں رد کر کے واپس آ گئے تھے۔ يہ مذاکرات 11سے 25 جون سن 2000ء تک ہوئے تھے۔
امريکی صدربل کلنٹن کو اميد تھی کو وہ اپنی گرمائی قيام گاہ پر فلسطينيوں اور اسرائيليوں کو ايک سمجھوتے پررضامند کرليں گے، اُسی طرح جيسے کہ 22 سال قبل اُس وقت کے صدر جمی کارٹر کو مصراوراسرائيل کے درميان سمجھوتہ کرانے ميں کاميابی ہوئی تھی۔
کلنٹن نے کہا تھا: ’وزيراعظم باراک اورچيئر مين عرفات کو يہ بصيرت اور تجربہ حاصل ہے اور صلاحيت اور جرات بھی کہ وہ ايک سمجھوتے کے لئے ضروری اقدامات کرسکتے ہيں اور پھر اسے اپنی قوموں کے پاس لے جا سکتے اور يہ ديکھ سکتے ہيں کہ وہ اس پررضامند ہوتے ہيں يا نہيں۔‘ تاہم باراک اورعرفات خالی ہاتھ واشنگٹن سے واپس ہوئے۔ ايہود باراک اگلے انتخابات ہار گئے اورعرفات 11نومبرسن 2004ء کو انتقال کر گئے۔
عرفات کے جانشين عباس اورشارون کے درميان ايک ملاقات ہوئی اور دوسری انتفادہ کو ختم قرار دیا گيا، ليکن اُس کے اثرات آج تک موجود ہيں۔ دونوں فريقوں کے درميان گہری بد اعتمادی پائی جاتی ہے اور وہ اوسلو کے تصورکو حقیقت کا جامہ پہنانے سے مسلسل قاصر ہيں۔
رپورٹ: شہاب احمد صدیقی
ادارت: عاطف بلوچ