فلسطینی صدر کا اوسلو امن معاہدے سے علیحدگی کا اعلان
30 ستمبر 2015نیو یارک سے بدھ تیس ستمبر کی شام موصولہ مختلف نیوز ایجنسیوں کی رپورٹوں میں بتایا گیا ہے کہ مقامی وقت کے مطابق بدھ کی سہ پہر اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی سے اپنے خطاب میں فلسطینی صدر نے کہا، ’’اسرائیل سن 1993ء میں طے پانے والے اوسلو امن معاہدے کی مسلسل خلاف ورزیاں کر رہا ہے اور انہیں بھی اب یہ اعلان کرنا پڑ رہا ہے کہ وہ (فلسطینی) بھی خود کو اس (معاہدے) کا پابند محسوس نہیں کرتے۔‘‘
اس موقع پر فلسطینی صدر نے بین الاقوامی برادری سے یہ اپیل بھی کی کہ وہ فلسطینیوں کو اسرائیل سے تحفظ فراہم کرے۔ محمود عباس نے کہا، ’’ہم یہ اعلان کرتے ہیں کہ جب تک اسرائیل اس معاہدے کے احترام اور اس پر عملدرآمد سے انکاری ہے، تب تک ہمارے پاس بھی اس کے سوا کوئی چارہ نہیں کہ ہم بھی اس معاہدے کے وہ واحد فریق بنے رہنے سے انکار کر دیں جو ابھی تک دونوں کی طرف سے دستخط کردہ اس معاہدے کی پاسداری کر رہا ہے۔‘‘
فلسطینی صدر نے اپنے خطاب میں مزید کہا، ’’ہم اعلان کرتے ہیں کہ ہم بھی اب اس معاہدے کے پابند نہیں رہیں گے۔ اسرائیل کو ایک ’قابض طاقت‘ کے طور پر اپنی وہ تمام ذمے داریاں پوری کرنی چاہییں، جو اس پر عائد ہوتی ہیں۔‘‘
محمود عباس نے اپنی تقریر میں یہ مطالبہ بھی کیا کہ فلسطین کو اقوام متحدہ کی مکمل رکنیت دی جائے۔ انہوں نے کہا کہ اسرائیل فلسطینیوں کے ساتھ ان معاہدوں پر عمل درآمد سے انکاری ہے، جن پر اس نے دستخط کر رکھے ہیں۔ عباس کے بقول، ’’اسرائیل کی وجہ سے فلسطینی خود مختار انتظامیہ اپنے لیے ہر طرح کے حقیقی اختیارات سے محروم ہو چکی ہے۔‘‘
صدر محمود عباس کی تقریر سے قبل بدھ تیس ستمبر ہی کے روز اقوام متحدہ کے صدر دفاتر کی عمارت میں ایک تقریب میں پہلی مرتبہ باقاعدہ طور پر فلسطینی خود مختار علاقوں کا پرچم بھی لہرا دیا گیا۔ اس تقریب میں کئی سرکردہ مہمان شریک ہوئے۔ فلسطینی خود مختار علاقوں کو ابھی تک اس عالمی ادارے کی مکمل رکنیت نہیں ملی بلکہ فلسطین کی حیثیت ایک مبصر رکن ملک کی ہے۔