فوج سمیت ہر کوئی پارلیمان کو جوابدہ، وزیر اعظم گیلانی
23 دسمبر 2011وزیر اعظم گیلانی کا یہ بیان ایک ایسے وقت میں سامنے آیا ہے جب سپریم کورٹ میں زیر سماعت متنازعہ میمو کے معاملے پر فوجی اور سویلین قیادت کے مؤقف میں اختلاف کھل کر سامنے آ چکا ہے۔ فوجی حکام کہتے ہیں کہ میمو کے معاملے کی تحقیقات ہونی چاہیئں جبکہ حکومت کا کہنا ہے کہ سپریم کورٹ اس معاملے کی سماعت نہ کرے۔
وزیر اعظم گیلانی کا کہنا تھا کہ وہ فوج کا بے حد احترام کرتے ہیں اور ہر مشکل وقت میں انہوں نے فوج کے ساتھ کھڑے ہو کر اس کا وقار بلند کیا۔ انہوں نے کہا کہ سوات اور قبائلی علاقوں میں شدت پسندوں کے خلاف کارروائی ہو، ممبئی میں دہشت گردانہ حملے، اسامہ بن لادن کی ہلاکت یا نیٹو افواج کا حملہ، انہوں نے پاکستانی فوج پر کوئی حرف نہیں آنے دیا۔
انہوں نے کہا کہ مشکل معاشی حالات کے باوجود فوج کی تنخواہ دگنی کی گئی، اس لیے وہ ریاست کے اندر ریاست نہیں ہو سکتی بلکہ پوری طرح پارلیمان کو جوابدہ ہے۔
قومی اسمبلی میں اپنی تقریر سے قبل وزیر اعظم نے یوم قائد اعظم کے حوالے سے منعقدہ نوجوانوں کی ایک تقریب سے خطاب کرتے ہوئے بھی سخت لب و لہجہ اپنایا۔ انہوں نے کہا، ‘‘ہم پاکستان کے لوگوں کی خدمت کرنے آئے ہیں۔ اگر ہماری عزت نہیں کی جائے گی اور اگر میں پاکستان کے لوگوں کے حقوق کی ضمانت نہیں دے سکتا تو مجھے وزیراعظم رہنے کا کوئی حق نہیں۔“
وزیراعظم گیلانی نےمزید کہا، ”میں آج آپ پر واضح کر دینا چاہتا ہوں کہ ہاں، سازشیں ہو رہی ہیں اور سازشیں یہ ہو رہی ہیں کہ منتخب حکومت کو ختم کیا جائے۔ تو میں بتانا چاہتا ہوں کہ ہم حکومت، اپوزیشن یا عوام میں رہیں، ہم لوگوں کے حقوق کے لئے لڑتے رہیں گے۔“
دوسری جانب سپریم کورٹ میں جمعرات کے روز متنازعہ میمو اسکینڈل کی سماعت بھی ہوئی۔ اس موقع پر پاکستان کے امریکہ میں سابق سفیر اور میمو اسکینڈل کے اہم فریق حسین حقانی کی وکیل عاصمہ جہانگیر نے عدالت کو بتایا کہ ان کی اپنے مؤکل کے ساتھ ملاقات نہیں ہو سکی اس لیے وہ ان کی جانب سے بیان حلفی عدالت میں داخل نہیں کروا سکتیں۔ اس پر چیف جسٹس نے متعلقہ حکام کو ہدایت کی کہ وہ حسین حقانی کی سپریم کورٹ کی عمارت میں عاصمہ جہانگیر کے ساتھ ملاقات کا انتظام کریں۔
بعد میں عدالتی حکم کے نتیجے میں حسین حقانی سخت سکیورٹی میں سپریم کورٹ پہنچے، جہاں انہوں نے اپنی وکیل عاصمہ جہانگیر کے ساتھ ایک طویل ملاقات کی لیکن اس کے بعد وہ ذرائع ابلاغ سے کوئی بات کیے بغیر ہی واپس چلے گئے۔
بعد میں عاصمہ جہانگیر نے صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ حسین حقانی نے انہیں بتایا ہے کہ میمو کے معاملے سے ان کا، وزیر اعظم یا صدر کا کوئی تعلق نہیں ہے۔ عاصمہ جہانگیر نے کہا کہ ہر باشعور آدمی سمجھ سکتا ہے کہ میمو ایک سازش ہے اسی لیے اس کو اتنی ہوا دی جا رہی ہے۔ میمو اسکینڈل کی سماعت سپریم کورٹ میں کل جمعے کو بھی ہو گی۔
دوسری جانب وزیر قانون مولا بخش چانڈیو نے بھی ذرائع ابلاغ سے گفتگو کرتے ہوئے کہا، ‘‘یہی سب سے بڑی سازش ہے کہ پارلیمنٹ کے اختیار اور طاقت کو بدقسمتی سے ایک سیاسی قوت نے عدالت میں چیلنج کیا ہے۔ میں بار بار کہہ رہا ہوں کہ ضیاءالحق کی ترمیم کے بعد سیاستدانوں نے اپنے اختیار کی کٹوتی پر مہر ثبت کی تھی۔ آج پھر موقع آیا ہے کہ ایک جمہوریت پسند سیاستدان پارلیمنٹ کے
خلاف عدالت میں کھڑے ہوئے ہیں۔“
دریں اثناء قائد حزب اختلاف چوہدری نثار علی خان نے قومی اسمبلی میں بات کرتے ہوئے کہا کہ ماضی میں ہر اپوزیشن جماعت حکومت کو گرانے کی سازش کرتی رہی ہے لیکن موجودہ اپوزیشن جمہوری نظام کے خلاف سازشوں کا مقابلہ کرتے ہوئے کومت کا ساتھ دے رہی ہے۔
تجزیہ نگاروں کا کہنا ہے کہ وزیر اعظم یوسف رضا گیلانی کی تقاریر فوجی اور سول حکام کے درمیان اسامہ بن لادن کی ہلاکت، متنازعہ میمو اور نیٹو حملے سمیت کئی معاملات پر جاری اندرونی کشمکش کا نتیجہ ہیں۔
رپورٹ شکور رحیم، اسلام آباد
ادارت عصمت جبیں