فیڈل کاسترو نوے برس کے ہو گئے
13 اگست 2016کیوبا کے رہنما فیڈل کاسترو کو اکیسویں صدی کی عالمی سیاست کی بُنت کا ایک اہم ستون قرار دیا جاتا ہے۔ کیوبا کے انقلاب کی روح رواں فیڈل کاسترو نے دس برس قبل اقتدار اپنے چھوٹے بھائی راؤل کاسترو کو منتقل کر دیا تھا۔
طویل العمری اور صحت کے مسائل کی وجہ سے فیڈل کاسترو نہ صرف کوہیبا سگار پینا ترک کر چکے ہیں بلکہ وہ عوامی منظر نامے پر بھی کم ہی نظر آتے ہیں لیکن وہ آج بھی اپنی قوم کے ایک رہنما اور ہیرو تصور کیے جاتے ہیں۔
فیڈل کاسترو نے جب سن انیس سو تریپن میں مونکاڈا ملٹری بیرکس پر حملے میں شرکت کی تھی تو تب کوئی نہیں کہہ سکتا تھا کہ یہ نوجوان ملکی تاریخ کی ایک اہم سیاسی شخصیت بن کر ابھرے گا۔ تب چھبیس سالہ وکیل کاسترو کو اس ناکام حملے میں ملوث ہونے پر گرفتار کر لیا گیا تھا۔ ان کے کئی باغی ساتھیوں کو ہلاک کر دیا گیا تھا لیکن کاسترو کیوبا کے آمر حکمران فُلخینسیو باتیتسا کی فورسز سے بچ نکلنے میں کامیاب ہو گئے تھے۔
اس واقعے کے چھ برس بعد جلا وطنی کی زندگی ترک کرتے ہوئے کاسترو ایک مرتبہ پھر ہوانا میں داخل ہوئے، وہ اس وقت صرف بارہ گوریلا جنگجوؤں کے ساتھ ایک بڑے مشن پر تھے۔ کمیونسٹ کاسترو پہلی مرتبہ اس وقت منظر عام پر آئے، جب انہوں نے گوریلا کارروائی کے ذریعے باتیتسا اور ان کی اسی ہزار کی فوج کو شکست سے دوچار کر دیا۔
سرد جنگ کے عروج کے زمانے میں کیوبا میں کاسترو کی اس اچانک اور غیر متوقع کامیابی نے کمیونزم کو امریکا کے سر پر لا کھڑا کیا تھا۔ اسی خوف کے باعث امریکی خفیہ ایجنسی اور کیوبا کے جلا وطن شہریوں کے ایک حلقے نے کاسترو کو ہلاک کرنے کے کئی منصوبے بنائے لیکن تمام ناکام رہے۔ امریکی خفیہ ایجنسی کے سابق سربراہ فابیان ایسکلانتے کے مطابق کاسترو کو کم ازکم 634 مرتبہ قتل کرنے کی کوشش کی گئی تھی۔
فیڈل کاسترو خود کو امریکی ’سلطنت‘ کے ایک سخت حریف قرار دیتے تھے۔ وہ آج بھی اپنے اسی موقف پر برقرار ہیں جب امریکی صدر باراک اوباما نے کیوبا کے ساتھ تعلقات میں بہتری کی خاطر ہوانا کا تاریخی دورہ کیا تھا تو تب بھی کاسترو نے عوام کو خبردار کیا تھا کہ وہ امریکا کے بیانات کے باعث بے قوف نہ بنیں۔
کاسترو نے نصف صدی تک کیوبا پر حکمرانی کی اور اس دوران انہوں نے سن انیس سو انسٹھ میں اپنے ہی ایک گوریلا کمانڈو ہوبر ماتوس کو بیس برس کی جیل کی سزا بھی سنائی۔ وہ کیوبا میں منحرفین کو سخت سزائیں دینے سے کبھی نہیں چوکتے تھے۔ کاسترو کے مخالفین انہیں ایک ’جابر آمر‘ کے طور پر بھی یاد کرتے ہیں۔
اپنے دور اقتدار میں کاسترو نے لاطینی امریکا میں بائیں بازو کے گوریلا فائٹرز کی بھرپور حمایت کی۔ انہوں نے ایسے ملکوں میں بھی جنگجو روانہ کیے، جہاں سرد جنگ کے اثرات شدید ہو گئے تھے۔ اس دور میں کاسترو نے کمیونزم کی حمایت کی خاطر انگولا، ایتھوپیا، کانگو، الجزائر اور شام میں مجموعی طور پر تین لاکھ چھیاسی ہزار دستے روانہ کیے تھے۔ کاسترو ساٹھ کی دہائی میں ہی دنیا بھر کی انقلابی تحریکوں اور انفرادی سطح پر مزاحمت کرنے والوں کے ہیرو بن چکے تھے۔
تیرہ اگست بروز ہفتہ کیوبا میں کاسترو کی سالگرہ کی تقریبات کا شاندار انداز میں انعقاد کیا جا رہا ہے۔ جمعے کی نصف شب ہی دارالحکومت ہوانا میں لوگوں کی ایک بڑی تعداد نے آتشبازی کی اور اپنے اس ہیرو کی طویل عمر کے لیے خصوصی تقریبات کا انعقاد کیا۔ آج بروز ہفتہ بھی ملک بھر میں متعدد تقریبات کا سلسلہ جاری ہے، جو رات گئے تک جاری رہے گا۔