قبل از انتخابات دھاندلی، حقیقت یا فسانہ
20 جون 2018پاکستان کی گزشتہ پارلیمان نے اپنی مدت پوری کی تو ساتھ ہی مسلم لیگ ن کی حکومت کا دور بھی اپنے اختتام کو پہنچا، پھر نگران حکومتیں اقتدار میں آئیں، سیاسی جماعتوں کو انتخابی نشانات جاری کیے گئے اور اب سیاسی امیدواروں کے کاغذات نامزدگی کی جانچ پڑتال کے ساتھ ساتھ حتمی انتخابی فہرستیں بھی اپنی تکمیل کی جانب بڑھ رہی ہیں۔ اس دوران پچیس جولائی کے عام انتخابات کے ممکنہ التوا کی افواہیں بھی اگر تقریباﹰ دم توڑ چکی ہیں تو یہی صورت حال انتخابی عمل میں حرارت کا باعث بھی بن رہی ہے۔ اس وقت پاکستانی سیاست میں انتخابی مقابلوں اور اپنے اپنے مقابل امیدواروں کی وضاحت ہوتے جانے کے ساتھ ہی نئے پرانے سبھی سیاسی حربوں کا پھر سے جائزہ لیا جا رہا ہے اور پارٹیاں اور امیدوار اپنی حکمت عملی کی تشکیل میں مصروف ہیں۔
ان حالات میں مختلف سیاسی اور سماجی حلقوں کے علاوہ سول سوسائٹی کی تنظیموں اور مختلف تھنک ٹینکس کی جانب سے بھی قبل از انتخابات دھاندلی کے الزامات لگائے جا رہے ہیں۔ لیکن سوال یہ ہے کہ آیا یہ الزامات ٹھوس حقائق پر مبنی ہیں یا وہ بھی سیاست کی بساط پر محض ایک چال ہی ہیں؟ ممکن ہے کہ پاکستانی سیاست میں اس مبینہ انتخابی ’دھاندلی‘ کو بھی ماضی قریب کے ’پنکچروں‘ کی طرح کبھی ثابت نہ کیا جا سکے۔
سترہ جون کو پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) نے ملکی شہریوں کو شناختی دستاویزات جاری کرنے والی اتھارٹی نادرہ کے چیئرمین عثمان مبین کے خلاف الیکشن کمیشن میں ایک درخواست دائر کرانے کا فیصلہ کیا۔ تحریک انصاف کا کہنا تھا کہ عثمان مبین کو ان کے موجودہ عہدے پر سابق وزیر اعظم نواز شریف نے تعینات کیا تھا اور مبین نواز شریف کے ’وفادار‘ ہیں۔ پی ٹی آئی نے یہ دعویٰ بھی کیا تھا کہ عثمان مبین کی اسی مبینہ ’وفاداری‘ کی وجہ سے نادرہ کے چند اندرونی حلقوں نے عام ووٹروں سے متعلق کافی زیادہ انتہائی اہم ڈیٹا مسلم لیگ ن کو فراہم کر دیا تھا۔ پی ٹی آئی کا یہ دعویٰ اگرچہ ایک الزام ہی تھا مگر اس پارٹی نے اپنی طرف سے اسے بھی ’قبل از انتخابات دھاندلی‘ ہی قرار دیا تھا۔
کیا انتخابی حلف نامے نا اہلی کے لیے استعمال ہو سکتے ہیں؟
پاکستان تحریک انصاف کی طرف سے مسلسل یہ بھی کہا جاتا رہا ہے کہ مسلم لیگ ن کی حکومت انتخابی عمل کے پیش منظر میں سرکاری وسائل کا سیاسی استعمال کرتی رہی ہے۔ 20 نومبر 2017 کو عمران خان کا دعویٰ تھا کہ مسلم لیگ ن کی مرکزی حکومت نے سرکاری ترقیاتی فنڈز کے نام پر بیس کروڑ روپے اپنے وزراء میں تقسیم کیے تھے۔ تب انہوں نے اس اقدام کو بھی ’قبل از انتخابات دھاندلی‘ قرار دیتے ہوئے ملکی الیکشن کمیشن سے مداخلت کا مطالبہ کیا تھا۔
پھر اس سال یکم مارچ کو سپریم کورٹ کے چیف جسٹس ثاقب نثار نے ’سؤو موٹو‘ نوٹس لیتے ہوئے مرکزی اور صوبائی حکومتوں کی جانب سے سرکاری وسائل استعمال کرتے ہوئے اپنے ’کارناموں‘ کی تشہیر کو بھی ’قبل از انتخابات دھاندلی‘ کے مترادف قرار دیتے ہوئے ایسی تشہیری مہموں پر پابندی عائد کر دی تھی۔ تب چیف جسٹس ثاقب نثار نے کہا تھا، ’’ان تشہیری مہموں پرعوام کے اربوں روپے خرچ کیے جا رہے ہیں۔ اگر صوبائی حکومتیں اپنے کارناموں کی تشہیر سرکاری اور پرائیویٹ میڈیا کے ذریعے کرنا چاہتی ہیں، تو وہ اس کے لیے ریاست کا نہیں بلکہ اپنا پارٹی فنڈ استعمال کریں۔‘‘
اس سے پہلے 13 ستمبر 2017 کو پاکستان پیپلز پارٹی کے کارکنوں نے لاہور سے قومی اسمبلی کے حلقہ 120 کے ضمنی انتخاب میں پنجاب حکومت کی طرف سے بھرپور تشہیری مہم کی وجہ سے صوبائی حکومت پر بھی قبل از انتخابات دھاندلی کا الزام لگایا تھا۔ موجودہ حالات میں سات جون 2018 کو گرینڈ ڈیموکریٹک الائنس نے سندھ میں صوبائی الیکشن کمشنر کے دفتر میں یہ شکایت کی تھی کہ سندھ حکومت سرکاری وسائل کے استعمال اور ترقیاتی منصوبوں کے ذریعے قبل از انتخابات دھاندلی کی مرتکب ہو رہی ہے۔
کون پاکستانی انتخابات میں تاخیر چاہتا ہے؟
دوسری طرف مسلم لیگ ن کی جانب سے پاکستان کی اعلیٰ عدالتوں پر بھی جانبداری کے مسلسل الزامات لگائے جا رہے ہیں اور یہ پارٹی بھی مبینہ طور پر عدلیہ کے ذریعے ’قبل از انتخابات دھاندلی‘ کی شکایت کر رہی ہے۔ مسلم لیگ ن کی اعلیٰ قیادت کی طرف سے اپنی شکایات کے لیے استعمال کی جانے والی زبان بھی بہت منفرد ہے۔ مثلاﹰ نواز شریف اور ان کی بیٹی مریم نواز کئی بار کہہ چکے ہیں کہ پاکستانی اعلیٰ عدالتیں ’خلائی مخلوق‘ کے دباؤ میں ہیں اور نہ صرف شریف خاندان کو ’دیوار سے لگایا جا رہا‘ ہے بلکہ اس خاندان کے سیاسی مخالفین (مثلاﹰ عمران خان، پرویز مشرف وغیرہ) کو غیر آئینی مراعات دی جا رہی ہیں۔ نواز لیگ کی طرف سے پی ٹی آئی کے سربراہ عمران خان کے لیے ’لاڈلا‘ کا لفظ واضح طنز کے ساتھ استعمال کیے جانے کا مقصد یہ دعویٰ کرنا ہے کہ پاکستانی عدلیہ اور فوج مبینہ طور پر مسلم لیگ ن کے خلاف گٹھ جوڑ کر چکے ہیں اور شریف خاندان کے سیاسی رہنماؤں کو ’ناجائز مقدمات‘ میں پھنسا کر عمران خان کو اپنا ’کٹھ پتلی وزیر اعظم‘ بنانا چاہتے ہیں۔
نواز شریف کے سیاسی بیانیے کا مرکزی نکتہ بھی یہی ہے کہ اسٹیبلشمنٹ ’قبل از انتخابات دھاندلی‘ کے ذریعے ان کا اور ان کی جماعت کا (خود نواز شریف کے بقول) ’حق حکمرانی‘ سلب کرنے کی کوشش کر رہی ہے۔ نواز شریف نے اسی مہینے کی سات تاریخ کو یہ بھی کہہ دیا تھا، ’’نیب کے اقدامات قبل از انتخابات دھاندلی ہیں۔ ہمارے (سابقہ) اراکین اسمبلی کو ہراساں اور پارٹی چھوڑنے پر مجبور کیا جا رہا ہے۔‘‘
گزشتہ ماہ کے آخر میں پاکستان میں انتخابی امور پر تحقیق کرنے والے ایک سرکردہ ادارے ’پِلڈاٹ‘ نے اپنی ایک رپورٹ بھی شائع کی تھی، ’قبل از انتخابات سروے رپورٹ‘، جس میں اپریل 2017 سے مارچ 2018 تک کے اہم اقدامات اور واقعات کا جائزہ لیا گیا ہے۔ اس رپورٹ کے مطابق بھی ’قبل از انتخابات کے مراحل ہمہ گیر طور پر غیر منصفانہ تھے‘۔
پِلڈاٹ نے انتخابات سے قبل سال رواں کے تجزیے کے لےے گیارہ پیمانے وضع کیے اور ہر اشاریے کو سو پوائنٹ دیے گئے۔ اس رپورٹ کے مطابق پاکستانی فوج کی غیر جانبداری کو سب سے کم یعنی 100 میں سے 33.4 پوائنٹس ملے۔ ریاستی اور غیر ریاستی اداروں کی جانب سے میڈیا پر دباؤ ڈالے جانے کی پیمائش 37.8 پوائنٹس کے ساتھ کی گئی جبکہ سرکاری میڈیا کی غیر جانبداری کو 100 میں سے 41.5 پوائنٹس ملے۔ اس رپورٹ میں بہت اہم بات یہ بھی تھی نیب کو ایک غیر جانبدار ادارے کے طور پر 43.1 جبکہ غیر جانبدار عدلیہ کو 45.8 پوائنٹس ملے تھے۔ پِلڈاٹ کے ایک ترجمان کے مطابق اس ادارے کے ساٹھ فیصد تجزیہ نگاروں اور اراکین کا خیال ہے کہ پاکستان میں مسلح افواج کوئی غیر جانبدارانہ کردار ادا نہیں کر رہیں اور میڈیا میں غیر سرکاری اداروں تک کو شدید دباؤ کا سامنا ہے۔
قریب دو ماہ قبل اپریل کے وسط میں پاکستان کے ساٹھ سے زائد سینئر صحافیوں، مدیروں اور کالم نگاروں نے ملکی میڈیا پر بڑھتے ہوئے دباؤ کی مذمت کرتے ہوئے اسے ’انتہائی تشویشناک‘ قرار دیا تھا۔ ان صحافتی شخصیات کے جاری کردہ ایک بیان کے مطابق، ’’یہ دباؤ مخصوص صحافیوں، اخبارات اور ٹی وی چینلز سے شروع ہوا تھا، لیکن اب ہر کوئی اس کی لپیٹ میں آ چکا ہے۔ کچھ مسائل پر تو مکمل زبان بندی لاگو کر دی گئی ہے۔‘‘
اس سال مئی کے اواخر میں پاکستانی اخبارات اور جرائد کے مدیران کی کونسل سی پی این ای کے عہدیداروں کا بھی یہی کہنا تھا کہ ریاستی، حکومتی، غیرسرکاری اور مذہبی تنظیموں کی جانب سے صحافیوں کو شدید دباؤ اور دھمکیوں کا سامنا ہے۔ کونسل آف پاکستان نیوزپیپرز ایڈیٹرز کے سربراہ عارف نظامی کے مطابق، ’’پاکستانی اخبارات اور صحافیوں نے ہمیشہ اغواء، گرفتاریوں حتیٰ کہ صحافیوں کے قتل جیسے انتہائی حالات و اقدامات کا بڑی بہادری سے سامنا کیا ہے مگر موجودہ حالات اس قدر سنگین ہیں کہ اب کوئی اخبار یا صحافی ان کے خلاف شکایت کرنے کی جرأت ہی نہیں کر رہا۔‘‘ عارف نظامی کے مطابق جیسے جیسے پچیس جولائی کے انتخابات قریب تر آتے جا رہے ہیں، پاکستانی معاشرے میں آزاد اور غیر جانبدار میڈیا کی ضرورت شدید تر ہوتی جا رہی ہے۔