کیا انتخابی حلف نامے نا اہلی کے لیے استعمال ہو سکتے ہیں؟
8 جون 2018ان حلف ناموں میں انتخابات لڑنے والے سیاست دانوں سے ان کی جائیداد، قرضہ، نادہندگی، بیرونی دورے، ٹیلی فون، گیس اور بجلی کے بلوں کی ادائیگی، ازواج اور بچوں کی تعداد، اپنے اور گھر والوں کے کاروبار کی تفصیلات، پاسپورٹ نمبر، نیشنل ٹیکس نمبر، تعلیمی قابلیت، ذرائع آمدنی اور انکم ٹیکس کی ادائیگیوں سمیت کئی طرح کی تفصیلات مانگی گئیں ہیں۔
بعض سیاستدانوں کا کہنا ہے کہ یہ حلف نامے نادیدہ قوتوں کے اشارے پر تیار کیے گئے ہیں تاکہ ان کونا پسندیدہ سیاست دانوں کے خلاف استعمال کیا جا سکے۔ اس حلف نامے پر تحفظات کا اظہار کرتے ہوئے سابق وفاقی وزیرِ برائے پورٹس اینڈ شپنگ میر حاصل بزنجو نے ڈوئچے ویلے کو بتایا، ’’ہمیں اس پر شدید تحفظات ہیں اور ہمارے خیال میں ان حلف ناموں کو مستقبل میں سیاست دانوں کو نا اہل کرنے کے لیے استعمال کیا جائے گا۔ یہ حلف نامے الیکشن کمیشن کی بد نیتی کو ظاہر کرتے ہیں لیکن یہ انہوں نے خود نہیں بنائے بلکہ نادیدہ قوتوں نے بنا کر انہیں دیے ہیں۔ اگر ای سی پی کی کوئی بدنیتی نہیں ہے تو پہلے اس طرح کے حلف نامے ججوں، جنرلوں اور نوکر شاہی کے افسران سے بھروائے۔ میرے خیال میں ساری سیاسی جماعتوں کو اس مسئلے پر متفقہ موقف اپنانا چاہیے۔''
پاکستان پیپلز پارٹی نے بھی اس حلف نامے پر تحفظات کا اظہار کیا ہے۔ پارٹی کے مرکزی رہنما اور سابق ایم این اے چوہدری منظور نے اس مسئلے پر اپنا نقطہء نظر دیتے ہوئے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ’’مجھے ذاتی طور پر اس پر کوئی اعتراض نہیں ہے کیونکہ میرے پاس چھپانے کو کچھ نہیں ہے۔ لیکن ہمیں خدشہ ہے کہ اس حلف نامے کو سیاست دانوں کے خلاف استعمال کیا جائے گا۔ اگر یہ حلف نامہ ضروری ہے تو سیاست دانوں کے ساتھ ساتھ جر نیلوں، ججوں اور نوکر شاہی کے افسران سے بھی پوچھیں کہ ان کے پاس منصب سنبھالنے سے پہلے کتنی دولت تھی اور بعد میں کتنی ہے۔‘‘
الیکشن کمیشن آف پاکستان کی طرف سے اس تاثر کو رد کیا گیا ہے کہ یہ حلف نامے کسی بیرونی قوت کے کہنے پر بنائے گئے ہیں۔ ای سی پی کے ایک سینیئر عہدیدار نے نام نہ ظاہر کرنے کی شرط پر ڈی ڈبلیو کو بتایا، ’’دو ہزار تیرہ کے انتخابات سے پہلے ای سی پی نے حلف نامے میں دیے گئے سوالات کو کاغذاتِ نامزدگی میں رکھا تھا۔ پھر پارلیمنٹ نے دوہزار سترہ میں ان کاغذات میں تبدیلی کر دی، ان تبدیلیوں کو عدالت میں چیلنج کیا گیا اور لاہور ہائی کورٹ نے ان ترامیم کو غیر قانونی قرار دے دیا۔ بعد میں سپریم کورٹ نے حکم دیا کہ حلف نامے تیار کیے جائیں کیونکہ کاغذاتِ نامزدگی کو دوبارہ چھاپنے کے لیے بہت وقت درکار ہے۔ تو ہم نے تو صرف عدالت کے حکم پر عمل کیا ہے اور یہ کام کسی کے اشارے پر نہیں کیا گیا ہے۔‘‘
پاکستان میں گزشتہ تین دہائیوں میں سیاست دانوں پر بد عنوانی کے سینکڑوں الزامات لگے۔ اسی لیے ملک میں کئی حلقے اس بات کو درست سمجھتے ہیں کہ عوامی نمائندوں کا کڑا احتساب ہونا چاہیے۔ سیاست دانوں کی جانب سے بھی اس سلسلے میں آوازیں اٹھ رہی ہیں۔ معروف سیاست دان اور ذوالفقار علی بھٹو کے دور کے وزیرِ خزانہ ڈاکٹر مبشر حسن نے ای سی پی کے اس اقدام کا خیر مقدم کیا ہے: ’’میر ے خیال میں اس طرح کے اقدامات سے کرپشن کو روکنے میں مدد ملے گی۔ سیاست دانوں کا ان حلف ناموں پر اعتراض بالکل نا مناسب ہے۔ اگر آپ کو سیاست میں حصہ لینا ہے تو آپ کو احتساب کے عمل سے بھی گزرنا ہوگا۔ یہ نہیں ہو سکتا کہ کوئی اسحاق ڈار کی شکل میں خود بھی ملک کی دولت لوٹے اور دوسرے کو بھی یہ موقع فراہم کرے کہ وہ ایسا کریں۔‘‘