قدافی کے خون آلود جسم کی تصاویر، آمروں کے لیے ایک پیغام
21 اکتوبر 2011گزشتہ برس کے اختتامی دنوں میں تیونس سے شروع ہونے والی انقلابی تحریک نے تیونس پر برسوں حکومت کرنے والے زین العابدین بن علی کو اقتدار سے علیحدہ کیا۔ اس کے ساتھ ہی مصر میں حسنی مبارک کے خلاف مظاہرے شروع ہو گئے اور چند ہی دنوں میں عرب دنیا کے مضبوط ترین حکمران تصور کیے جانے والے مبارک بھی اقتدار سے الگ ہونے پر مجبور ہو گئے۔ انہیں دنوں لیبیا میں عوام نے سیاسی اصلاحات اور جمہوری اداروں کے قیام کے مطالبات شروع کر دیے، جسے دیگر آمروں کے طرح طاقت کے بل بوتے پر کچلنے کی کوشش کی گئی، تاہم مشرقی شہر بن غازی سے مظاہرین نے مسلح جدوجہد کا آغاز کیا اور چالیس برس سے زائد عرصے سے لیبیا کی اقتدار پر قابض معمر قذافی کی فوجوں کو پسپائی اختیار کرنا پڑی۔
ایسے میں ان مظاہرین کے خلاف جنگی جہاز اور بھاری توپ خانے کا استعمال شروع ہوا، تو مغربی دنیا نے اقوام متحدہ کی ایک قرارداد کے نتیجے میں لیبیا میں نو فلائی زون قائم کرتے ہوئے، فوجی اہداف پر فضائی حملے شروع کیے، جو کئی ماہ تک جاری رہے۔ اس دوران معمر قذافی کے مخالف جنگجو مسلسل کامیابیاں حاصل کرتے رہے، جن کا حتمی نتیجہ معمر قذافی کے آبائی شہر سرت پر قبضے اور معمر قذافی کی ہلاکت کی صورت میں برآمد ہوا۔
اس تمام عمل میں عرب دنیا کے دیگر ممالک بھی عوامی مظاہروں کی لپیٹ میں آتے چلے گئے، تاہم یہاں بھی برسوں سے حکمران آمروں کا رویہ مختلف دکھائی نہیں دیا۔ شام میں مظاہرین کو کچلنے کے لیے ٹینکوں کا استعمال اب بھی جاری ہے، جہاں اب تک تین ہزار سے زائد افراد ہلاک ہو چکے ہیں۔ دوسری جانب یمن میں عبداللہ صالح کی سکیورٹی فورسز اب تک فائرنگ کر کے متعدد مظاہرین کو ہلاک کر چکی ہیں۔
عرب دنیا میں جاری اس انقلابی عمل میں زیادہ تر نوجوان شامل دکھائی دیے۔ گزشتہ روز معمر قذافی کی ہلاکت کے بعد بھی سماجی رابطوں کی ویب سائٹس پر نوجوان مختلف کمنٹس میں خوشی کا اظہار کرتے نظر آئے۔ اس جشن میں صرف لیبیائی باشندے شریک نہیں تھے بلکہ عرب دنیا کے دیگر نوجوان بھی یکساں شادمان نظر آ رہے تھے۔
مصر میں انقلابی تحریک میں شامل ایک بلاگر مونا سیف نے ایک سماجی نیٹ ورکنگ سائٹ پر لکھا، ’انقلابیوں کے درمیان ایک جذباتی تعلق ہے۔ اس سے امیدوں میں اضافہ ہوا ہے۔ معمر قذافی کے اقتدار کا خاتمہ صرف لیبیا کے لیے نہیں ہم سب کے لیے خوشی کا باعث ہے۔‘‘
لیبیا پر گزشتہ 42 برس سے حکومت کرنے والے 69 سالہ قذافی عرب دنیا میں جاری عوامی تحریکوں میں وہ پہلے آمر تھے، جنہیں جان سے ہاتھ دھونا پڑے۔ وہ شروع سے یہ اشارے دے رہے تھے کہ وہ آخر دم تک لڑائی جاری رکھیں گے۔ اپنے قومیت پسندانہ رویے کا اظہار کرنے والے معمر قذافی کے بارے میں مبصرین کا کہنا ہے کہ گو کہ ان کو قتل کرنے والے مخالفین نے گولیاں کا نشانہ بنایا اور زخمی حالت میں سڑک پر گھسیٹا، تاہم یہ رسوائی، بن علی کے تیونس چھوڑ کر فرار ہونے اور حسنی مبارک کی گرفتاری کے مقابلے میں پھر بھی کم تھی۔
مبصرین کا خیال ہے کہ معمر قذافی کی ہلاکت کے بعد ایک طرف تو یمن اور شام میں جاری مظاہروں میں مزید شدت دیکھنے میں آ سکتی ہے اور دوسری جانب ان ممالک کے حکمرانوں پر دباؤ میں بھی کچھ اضافہ ہو گا۔
رپورٹ: عاطف توقیر
ادارت: امتیاز احمد