1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

قذافی حکومت، خاتمے کے قريب تر

22 اگست 2011

يبيا ميں معمر قذافی کی حکومت اپنے خاتمے کے بالکل قريب پہنچ چکی دکھائی ديتی ہے۔ باغی، طرابلس کے بڑے حصے پر قبضہ کر چکے ہيں۔ ڈوئچے ويلے کے تبصرہ نگار رائنر زولش کے مطابق يہ ايک اچھی خبر ہے۔

https://p.dw.com/p/12LLp
ليبيا کے باغی طرابلس ميں قذافی کی ايک تصوير ہٹا رہے ہيں
ليبيا کے باغی طرابلس ميں قذافی کی ايک تصوير ہٹا رہے ہيںتصویر: picture-alliance/dpa

رائنر زولش کے مطابق معمر القذافی کی حکومت کا قريب تر آتا ہوا خاتمہ اپنے تمام تر ناقابل اندازہ نتائج کے باوجود ايک اچھی خبر ہے کيونکہ اس طرح ايک 42 سالہ آمرانہ دور ختم ہو رہا ہے۔ ليبيا کے عوام کو آزادی اور خود اپنی مرضی سے فيصلہ کرنے کا حق حاصل ہے۔ انہوں نے ہمت اور قربانيوں کے ساتھ اس کے ليے جنگ کی ہے۔

مغربی ممالک کی فوجی مدد کے بغير باغی کبھی بھی کامياب نہيں ہو سکتے تھے۔ نيٹو کے فضائی حملوں اور مسلسل بمباری نے ان کی پيش قدمی کے ليے راہ ہموار کی۔ اس کے بغير وہ قطعی طور پر شکست کھانے والوں ميں شمار ہوتے۔

باغی طرابلس ميں داخل ہو رہے ہيں
باغی طرابلس ميں داخل ہو رہے ہيںتصویر: dapd

ليکن اب خود ليبيا کے لوگوں پر سب سے بڑی ذمہ داری عائد ہوتی ہے۔ اُنہيں يہ ثابت کرنا ہو گا کہ وہ مل جل کر مستقبل کی تشکيل کرنا بھی جانتے ہيں۔ خطرات بے شمار ہيں، جنہيں نظر انداز نہيں کيا جا سکتا۔ خاص طور پر عوام ميں لڑائی اور تنازعات پھوٹ پڑنے کا بہت زيادہ خطرہ ہے۔ قذافی حکومت کے حاميوں پر انتقامی حملوں کا بھی خطرہ ہے، جنہيں روکنا ضروری ہے۔ منقسم اپوزيشن کو پارٹيوں کی شکل دينا ہو گی۔ قبائل کو اکٹھا کرنے اور مفادات کی منصفانہ ترتيب کی ضرورت ہے۔ ايک نيا آئين مرتب کيا جانا چاہيے اور جمہوری انتخابات کا اچھا انتظام بھی ضروری ہے۔

ليبيا کے باغی، جشن
ليبيا کے باغی، جشنتصویر: dapd

ان سب باتوں کے ليے وقت درکار ہے اور اس کا نتيجہ مصر کی طرح ايسا بھی نکل سکتا ہے جو يورپ کو پسند نہ ہو، مثلاً اسلامی قوتوں کا طاقتور ہو جانا۔ اگر ليبيا بحيرہء روم کے علاقے ميں عرب يورپی تعاون کی ايک مثال بن جائے، تو يہ يورپ اور مغرب کے ليے سب سے بہتر ہو گا۔ اور اگر يورپ ليبيا ميں جمہوری عمل کو کامياب بنانے ميں اس طرح حصہ لے سکے کہ وہ سياسی طور پر جارحانہ مداخلت نہ کرے، تو يہ بہت ہی اچھا ہو گا۔

جرمنی نے ليبيا کے خلاف جنگی کارروائی ميں جان بوجھ کر حصہ نہيں ليا۔ اس پر اُسے تنقيد کا نشانہ بھی بنايا گيا۔ اس کے باوجود يہ خواہش بجا طور پر کی جا سکتی ہے کہ جرمنی ليبيا کے ساتھ آئندہ سياسی تعاون ميں فعال طور پر حصہ لے۔

تبصرہ: رائنر زولش

ترجمہ: شہاب احمد صديقی

ادارت: مقبول ملک

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید

مزید آرٹیکل دیکھائیں