قذافی حکومت، خاتمے کے قريب تر
22 اگست 2011رائنر زولش کے مطابق معمر القذافی کی حکومت کا قريب تر آتا ہوا خاتمہ اپنے تمام تر ناقابل اندازہ نتائج کے باوجود ايک اچھی خبر ہے کيونکہ اس طرح ايک 42 سالہ آمرانہ دور ختم ہو رہا ہے۔ ليبيا کے عوام کو آزادی اور خود اپنی مرضی سے فيصلہ کرنے کا حق حاصل ہے۔ انہوں نے ہمت اور قربانيوں کے ساتھ اس کے ليے جنگ کی ہے۔
مغربی ممالک کی فوجی مدد کے بغير باغی کبھی بھی کامياب نہيں ہو سکتے تھے۔ نيٹو کے فضائی حملوں اور مسلسل بمباری نے ان کی پيش قدمی کے ليے راہ ہموار کی۔ اس کے بغير وہ قطعی طور پر شکست کھانے والوں ميں شمار ہوتے۔
ليکن اب خود ليبيا کے لوگوں پر سب سے بڑی ذمہ داری عائد ہوتی ہے۔ اُنہيں يہ ثابت کرنا ہو گا کہ وہ مل جل کر مستقبل کی تشکيل کرنا بھی جانتے ہيں۔ خطرات بے شمار ہيں، جنہيں نظر انداز نہيں کيا جا سکتا۔ خاص طور پر عوام ميں لڑائی اور تنازعات پھوٹ پڑنے کا بہت زيادہ خطرہ ہے۔ قذافی حکومت کے حاميوں پر انتقامی حملوں کا بھی خطرہ ہے، جنہيں روکنا ضروری ہے۔ منقسم اپوزيشن کو پارٹيوں کی شکل دينا ہو گی۔ قبائل کو اکٹھا کرنے اور مفادات کی منصفانہ ترتيب کی ضرورت ہے۔ ايک نيا آئين مرتب کيا جانا چاہيے اور جمہوری انتخابات کا اچھا انتظام بھی ضروری ہے۔
ان سب باتوں کے ليے وقت درکار ہے اور اس کا نتيجہ مصر کی طرح ايسا بھی نکل سکتا ہے جو يورپ کو پسند نہ ہو، مثلاً اسلامی قوتوں کا طاقتور ہو جانا۔ اگر ليبيا بحيرہء روم کے علاقے ميں عرب يورپی تعاون کی ايک مثال بن جائے، تو يہ يورپ اور مغرب کے ليے سب سے بہتر ہو گا۔ اور اگر يورپ ليبيا ميں جمہوری عمل کو کامياب بنانے ميں اس طرح حصہ لے سکے کہ وہ سياسی طور پر جارحانہ مداخلت نہ کرے، تو يہ بہت ہی اچھا ہو گا۔
جرمنی نے ليبيا کے خلاف جنگی کارروائی ميں جان بوجھ کر حصہ نہيں ليا۔ اس پر اُسے تنقيد کا نشانہ بھی بنايا گيا۔ اس کے باوجود يہ خواہش بجا طور پر کی جا سکتی ہے کہ جرمنی ليبيا کے ساتھ آئندہ سياسی تعاون ميں فعال طور پر حصہ لے۔
تبصرہ: رائنر زولش
ترجمہ: شہاب احمد صديقی
ادارت: مقبول ملک