لڑائی قذافی کے گھر تک پہنچ گئی
22 اگست 2011دوسری طرف جنوبی افریقہ نے کہا ہے کہ اس کی طرف سے معمر قذافی کو لیبیا سے نکالنے کے سلسلے میں کوئی مدد فراہم نہیں کی جا رہی۔ قبل ازیں اطلاعات تھیں کہ جنوبی افریقہ کے دو جہاز طرابلس پہنچے ہیں جو ممکنہ طور پر معمر قذافی کو وہاں سے لے جانے کے لیے بھیجے گئے ہیں۔
جنوبی افریقہ کے وزیر خارجہ انکوانا ماشابانے Nkoana-Mashabane نے جوہانسبرگ میں میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ انہیں یہ معلوم ہے کہ قذافی ان کے ملک میں سیاسی پناہ نہیں لیں گے۔ ماشابانے نے اس خبر کی بھی تردید کی کہ قذافی کو نکالنے کے لیے جنوبی افریقہ کا کوئی جہاز لیبیا بھیجا گیا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ قذافی کہاں ہیں، اس بات کا علم کسی کو نہیں ہے۔
اطالوی وزیر خارجہ فرانکو فراتینی نے آج پیر کے روز ’اسکائی اٹالیہ‘ ٹیلی وژن سے گفتگو کرتے ہوئے کہا ہے کہ قذافی کی حامی فوجوں کا دارالحکومت طرابلس کے محض 10 سے 15 فیصد علاقے پر کنٹرول رہ گیا ہے۔ فرانتینی نے کہا کہ قذافی کی ممکنہ ملک بدری سے متعلق مذاکرات کا وقت اب گزر چکا ہے، اور اب انہیں دی ہیگ میں قائم عالمی فوجداری عدالت کا سامنا کرنا ہوگا۔
فرانسیسی خبر رساں ادارے اے ایف پی کے مطابق طرابلس کے جنوبی علاقے میں عالمی وقت کے مطابق صبح چار بجے سے بھاری ہتھیاروں سے شدید فائرنگ کی آوازیں سنی جا رہی ہیں۔
باغیوں کے رہنماؤں کی طرف سے قبل ازیں کہا گیا کہ باغیوں کے حملے کے باعث قذافی کی حفاظتی زیادہ تر فوج کا خاتمہ ہوگیا ہے، تاہم طرابلس کے کئی علاقوں میں مزاحمت جاری ہے۔
معمر قذافی اس وقت کہاں ہیں، اس بات کا ابھی تک پتہ نہیں چل سکا مگر باغیوں کے مطابق ان کے ایک بیٹے سیف الاسلام کو گرفتار کیا جا چکا ہے۔ الجزیرہ ٹیلی وژن نے ان کے ایک اور بیٹے محمد قذافی سے بات کی جو اپنے گھر میں پناہ لیے ہوئے تھے اور باہر نکلنے سے خوفزدہ تھے۔
معمر قذافی کی طرف سے اتوار کے روز تین آڈیو پیغامات ملکی میڈیا پر سنوائے گئے جن میں انہوں نے کہا کہ وہ کسی صورت ہتھیار نہیں ڈالیں گے۔ انہوں نے لیبیا کے عوام پر زور دیا کہ وہ دارالحکومت طرابلس پہنچ کر باغیوں کا مقابلہ کریں۔
سفارتی ذرائع کے مطابق قذافی ابھی تک مرکزی طرابلس میں واقع اپنے رہائشی کمپاؤنڈ باب العزیزیہ میں ہیں۔ قذافی سے گزشتہ دو ہفتوں کے دوران ملاقات کرنے والے اس ذریعے نے خبر رساں ادارے اے ایف پی کو بتایا: ’’ وہ ابھی تک طرابلس میں ہیں اور زیادہ امکان یہی ہے کہ وہ باب العزیزیہ والی رہائش گاہ میں ہیں۔‘‘
19 مارچ سے جاری نیٹو کی فضائی کارروائی کے دوران قذافی کے باب العزیزیہ کمپاؤنڈ کو طیاروں سے بھی وقتاﹰ فوقتاﹰ نشانہ بنایا جاتا رہا ہے اور اس کمپاؤنڈ کا زیادہ تر حصہ تباہ ہو چکا ہے۔ تاہم سفارتی ذرائع کے مطابق اس کمپاؤنڈ میں کئی ایک بنکرز ہیں جن میں قذافی پناہ لے سکتے ہیں۔
امریکی صدر باراک اوباما نے کہا ہے کہ معمر قذافی کا 42 سالہ اقتدار اب خاتمے کے بالکل قریب ہے۔ انہوں نے قذافی کو ظالم حکمران قرار دیتے ہوئے اس بات پر زور دیا کہ انہیں جانا چاہیے۔ دوسری طرف انہوں نے باغیوں پر بھی زور دیا کہ وہ انسانی حقوق کی پاسداری کو یقینی بنائیں۔
رپورٹ: افسر اعوان
ادارت: مقبول ملک