قذافی کا اقتدار سے الگ ہونا ناگزیر، اوباما اور کیمرون کا مشترکہ بیان
25 مئی 2011امریکی صدر اور برطانوی وزیر اعظم نے مشترکہ طور پر کہا کہ معمر القذافی کو اقتدار سے الگ ہو جانا چاہیے۔ برطانیہ کے دورے پر گئے ہوئے اوباما نےکیمرون کے ساتھ ایک مشترکہ پریس کانفرنس میں اپنے موقف کو پھر دہرایا کہ مشرق وسطیٰ میں قیام امن کے لیے 1967ء کی سرحدوں کو تسلیم کرنا انتہائی اہم ہے۔ انہوں نے کہا کہ اس مقصد کے لیے اسرائیل اور فلسطینی رہنماؤں کو تعطل کے شکار امن مذاکرات شروع کرنے ہوں گے اورحماس کو اسرائیلی ریاست کو تسلیم کرنا پڑے گا۔
لندن منعقدہ اس پریس کانفرنس میں برطانوی وزیر اعظم نے کہا کہ معمر القذافی کا اقتدار سے الگ ہونا ضروری ہو گیا ہے۔ دونوں رہنماؤں نے کہا کہ قذافی کو لیبیا چھوڑ دینا چاہیے جبکہ لیبیا کے عوام کو اپنے مستقبل کا فیصلہ خود کرنا چاہیے۔ اس موقع پر اوباما نے کہا کہ لیبیا میں جاری مغربی دفاعی اتحاد کی فضائی کارروائی اقوام متحدہ کے مینڈیٹ کے مطابق ہو رہی ہے۔ تاہم انہوں نے یہ اعتراف ضرور کیا کہ اس مینڈیٹ کے تحت احتتاط پسندی کی وجہ سے یہ مشن طول پکڑ رہا ہے۔ انہوں نے اس عزم کا اظہار کیا کہ جلد ہی قذافی کو اقتدار سے الگ کر دیا جائے گا۔ انہوں نے لیبیا میں بری فوج اتارنے کے امکانات کو رد کر دیا۔
اس مشترکہ پریس کانفرنس سے قبل صدر باراک اوباما اور وزیر اعظم ڈیوڈ کیمرون نے نوے منٹ کی ایک ملاقات بھی کی۔ اس دوران مشرق وسطیٰ میں قیام امن اور عرب ممالک میں انقلابات کے علاوہ افغانستان اورانسداد دہشت گردی جیسے موضوعات پر تبادلہ خیال کیا ہے۔
پریس کانفرنس کے آغاز پر کیمرون نے کہا کہ امریکہ اور برطانیہ کو پاکستان کے ساتھ مل کر دہشت گردی کو ناکام بنانے کی کوشش جاری رکھنی چاہیے۔ انہوں نے کہا کہ دہشت گردی کے نتیجے میں سب سے زیادہ متاثر ہونے والا ملک خود پاکستان ہے اور جو بھی پاکستان کا دشمن ہے وہ ان کا بھی دشمن ہے۔
امریکی صدر نے اس دوران یمن کی صورتحال پر تبصرہ کرتے ہوئے زور دیا کہ صدر علی عبداللہ صالح کو اپنے وعدوں کا احترام کرتے ہوئے اقتدار کی پر امن منتقلی کو ممکن بنانا چاہیے۔ اس دوران شام میں حکومت مخالف مظاہرین پر سکیورٹی حکام کے کریک ڈاؤن کو تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے اوباما نے کہا کہ وہ یورپی یونین کی طرف سے صدر بشار الاسد پر عائد کی گئی پابندیوں کا خیر مقدم کرتے ہیں۔
دونوں رہنماؤں نے کہا کہ وہ جی ایٹ سمٹ کے دروان مشرق وسطیٰ اور شمالی افریقہ کے ان ممالک کے لیے اقتصادی اور سیاسی مدد فراہم کرنے کے حوالے سے بھرپور زور دیں گے، جہاں لوگوں نے جمہوریت کے لیے قربانیاں دی ہیں۔ دنیا کے امیر ترین آٹھ ممالک جی ایٹ کا دو روزہ اجلاس کل سے فرانس میں شروع ہو رہا ہے۔
رپورٹ: عاطف بلوچ
ادارت: افسر اعوان