لاطینی امریکا میں مچھروں سے پھیلنے والی نئی بیماری پر تشویش
29 ستمبر 2014مچھر کے باعث جنم لینے والی اس بیماری کو چیکونگونیا کہا جاتا ہے جو جان لیوا تو نہیں ہے تاہم اس کے تیز تر پھیلاؤ نے لوگوں کو تشویش میں مبتلا کر رکھا ہے۔ بعض علاقوں میں تو ہسپتال اس مرض کے شکار افراد سے بھرے پڑے ہیں۔
اس باعث متاثرہ علاقوں میں اقتصادی سرگرمیاں بھی متاثر ہوئی ہیں جبکہ مریضوں کو کئی کئی روز درد اور دکھ تکلیف میں گزارنے پڑ رہے ہیں۔ مریضوں کی تعداد بھی بڑھتی چلی جا رہی ہے۔
اس بیماری کا پتہ تقریباﹰ ایک برس پہلے چلا تھا اور تب سے ہی یہ کیریبیئن سے لے کر وسطی اور جنوبی امریکا میں ہر جگہ پھیل چکی ہے۔ خبر رساں ادارے اے پی کے مطابق ریاست ہائے متحدہ امریکا میں بھی بعض لوگ اس بیماری میں مبتلا ہوئے ہیں۔
ایل سلواڈور میں طبی حکام نے بتایا ہے کہ چیکونگونیا کے تقریباﹰ تیس ہزار مشتبہ کیسز سامنے آ چکے ہیں۔ اگست میں انہوں نے یہ تعداد دو ہزار تین سو بتائی تھی۔ اس مرض کی علامتوں میں جوڑوں کا شدید درد بھی شامل ہے جس کے باعث چلنا پھرنا محال ہو سکتا ہے۔
سان سلواڈور ہسپتال میں ایک انتالیس سالہ مریض کاتالینو کاسٹیلو کا کہنا ہے کہ اس بیماری کے نتیجے میں ہونے والا درد ناقابلِ یقین ہے۔ انہوں نے بتایا کہ دس دِن گزرنے کے باوجود بھی درد میں کمی واقع نہیں ہوئی۔
وینزویلا میں حکام نے اس بیماری کے سترہ سو کیسز کی تصدیق کی ہے۔ وہاں بھی اس تعداد میں اضافے کا خدشہ ہے۔ اس کے ہمسایہ ملک کولمبیا میں چار ہزار آٹھ سو افراد اس مرض میں مبتلا ہوئے ہیں لیکن وہاں وزارتِ صحت نے خدشہ ظاہر کیا ہے کہ آئندہ برس کے ابتدائی عرصے تک یہ تعداد سات لاکھ کو پہنچ سکتی ہے۔ برازیل میں بھی اس مرض کے آثار دکھائی دینا شروع ہو گئے ہیں۔
اس بیماری نے ڈومنیک ری پبلک کو سب سے زیادہ متاثرہ کیا ہے جہاں امریکا بھر میں سامنے آنے والے کیسز میں سے نصف رپورٹ کیے گئے ہیں۔
پین امریکن ہیلتھ آرگنائزیشن کے مطابق چیکونگونیا کم از کم دو درجن ملکوں اور خطوں میں پھیل چکا ہے۔ اس کا پہلا کیس گزشتہ برس کے اواخر میں کیریبیئن کے شمال مشرقی جزیرے فرنچ سینٹ مارٹن میں رپورٹ کیا گیا تھا۔
امریکی ریاست فلوریڈا میں بھی یہ بیماری پھیلی ہے جو بظاہر کسی دوسری جگہ سے وہاں نہیں پہنچی۔ اے پی نے ماہرین کے حوالے سے بتایا ہے کہ وہاں بھی مزید لوگ اس مرض کے شکار بن سکتے ہیں لیکن وسطی اور جنوبی امریکا خاص طور پر مچھروں کے نشانے پر ہے۔
یونیورسٹی آف ٹیکساس میڈیکل برانچ میں انسٹی ٹیوٹ فار ہیومن انفیکشنز اینڈ امیونٹی کے سربراہ اسکاٹ سی ویوَر کا کہنا ہے کہ جدید طبی تاریخ میں لاطینی امریکا میں یہ مرض پہلے کبھی نہیں دیکھا گیا۔ ان کا کہنا ہے کہ اسی باعث مقامی آبادی میں اس مرض کے خلاف قوتِ مدافعت نہیں پائی جاتی جو اس مرض کے تیزی سے پھیلنے کی وجہ بن رہی ہے۔