لانگ مارچ: ’’خطرے کی گھڑی میں سب اپنے مفاد کو دیکھ رہے ہیں‘‘
25 مئی 2022پاکستان تحریک انصاف کے لانگ مارچ کی وجہ سے حکومت نے پچھلے چھتیس گھنٹوں سے اسلام آباد کو جانے والی متعدد شاہراہوں کو بند کر رکھا ہے، موٹر وے اور جی ٹی روڈ کو رکاوٹیں لگا کر بند کر دیا گیا ہے۔ ادھر لاہور میں بھی بدھ کی شام تک شہر میں آنے اور جانے والے تمام راستے بند ہیں اور شہر میں پٹرول، سبزیوں پھلوں اور کئی دیگر اشیا کی فراہمی میں مشکلات پیش آنا شروع ہو گئی ہیں۔
پی ٹی آئی کا مارچ، کاروبار زندگی معطل
ڈی ڈبلیو سے گفتگو کرتے ہوئے ایک پٹرول پمپ کے مالک رشید چوہدری نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ پٹرول کی قیمتیں بڑھنے کے خدشے کے پیش نظر پٹرول پمپس کے مالکان اپنی ضرورت کے مطابق بہت تھوڑا تیل منگواتے ہیں۔ ان کے بقول پٹرول لانے والے آئل ٹینکرز کو اگر راستہ نہ ملا تو اگلے چوبیس گھنٹوں میں پٹرول کی قلت پیدا ہو سکتی ہے۔
پٹرول اور سبزیوں کی ممکنہ قلت
پاکستان آئل ٹینکرز ایسوسی ایشن کے چئیرمین شفیع مروت نے بھی اس بات کی تصدیق کی کہ راستوں کی بندش پٹرول کی قلت کے بحران کا باعث بن سکتی ہے۔ لاہور، گوجرانوالہ اور سیالکوٹ کو پٹرول فراہم کرنے والے ماچھیکے کے آئل سپلائی ڈپو سے بدھ کے روز معمول کے درجنوں آئل ٹینکروں کی سپلائی کے برعکس صرف آٹھ ٹینکر سپلائی لے کر جا سکے۔ ادھر جنوبی پنجاب سے رحیم یار خان، میلسی، بہاولپور کے علاقوں کو تو سپلائی جا رہی ہے لیکن لاہور کی طرف آئل کی سپلائی میں مشکلات ہیں۔
کاشتکاروں کے حقوق کے لئے کام کرنے والی ایک تنظیم کسان بورڈ پاکستان کے مرکزی نائب صدر عبدالجبار نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ لاہور سمیت جی ٹی روڈ کے آس پاس واقع بڑے شہروں میں سبزیوں، پھلوں اور دودھ سمیت کئی زرعی اشیا کی فراہمی قریبی دیہات سے ہوتی ہے ان کے بقول اگر راستے بند رہے تو شہریوں کو پہلے قیمتوں میں اضافے اور پھر ان اشیا کی قلت کا سامنا ہو سکتا ہے۔ فارماسیوٹیکل انڈسٹری سے وابستہ متعدد افراد نے تصدیق کی کہ لاہور سے باہر ادویات کی سپلائی راستوں کی بندش کی وجہ سے بری طرح متاثر ہو سکتی ہے۔
پاکستان: تمام رکاوٹوں کے باوجود عمران خان کا اسلام آباد پہنچنے کا اعلان
لاہور کی صورتِ حال
ادھر پنجاب کے صوبائی دارالحکومت میں روزمرہ کی سرگرمیاں تقریبا معطل ہو چکی ہیں، تعلیمی اداروں میں امتحانات ملتوی کر دئیے گئے ہیں۔ کئی بین الاقوامی کانفرنسیں منسوخ کر دی گئی ہیں۔ سڑکوں پر ٹریفک معمول سے کم ہے۔
بھاٹی چوک، راوی روڈ، شاہدرہ، بتی چوک اور ایوان عدل جیسے علاقے آج میدان جنگ جیسا منظر پیش کرتے رہے۔ ان علاقوں میں پاکستان تحریک انصاف اور پولیس کے مابین جھڑپوں کا سلسلہ وقفے وقفے سے جاری رہا۔ کئی مقامات پر لانگ مارچ کے لئے اسلام آباد جانے والے پی ٹی آئی کے کارکنوں کو گرفتاریوں، پولیس کے لاٹھی چارج، اور آنسو گیس کی شیلنگ کا سامنا کرنا پڑا۔
’اُوپر سے حکم ہے‘
اپنا نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر صوبہ پنجاب کے ہوم ڈپارٹمنٹ کے ایک افسر نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ اب تک صوبہ پنجاب میں گرفتار کئے جانے والے پی ٹی آئی کے لوگوں کی تعداد بارہ سو سے تجاوز کر چکی ہے ۔ ان کے بقول پی ٹی آئی کے رہنماوں اعجاز چوہدری اور میاں محمود الرشید کو بھی گرفتار کیا جا چکا ہے۔
ایک سوال کے جواب میں ان کا کہنا تھا کہ ہمیں اوپر سے آرڈر ہیں کہ اس لانگ مارچ کے اختتام تک کارروائی جاری رکھنی ہے۔ اور وفاقی کابینہ کے فیصلے کے مطابق لانگ مارچ کو روکنا ہے۔
دوسرے علاقوں میں پولیس کارروائیاں
سیالکوٹ، جہلم، راوالپنڈی، گجرات، گوجرانوالہ ، ملتان اور مریدکے سمیت کئی دیگر شہروں سے بھی پولیس کی طرف سے لانگ مارچ کے شرکا کو زبردستی روکنے کی اطلاعات ملی ہیں۔ بعض مقامات پر پی ٹی آئی کے کارکن رکاوٹوں کو ہٹا کر ٹولیوں کی صورت میں اسلام آباد کے لیے نکلے لیکن انہیں اگلے مقامات پر بھی سڑکوں پر کھڑی رکاوٹوں کا سامنا کرنا پڑا۔
پاکستان: پنجاب بھر میں گرفتاریاں، چھاپے اور روکاوٹیں
ادھر پولیس نے الزام لگایا ہے کہ لانگ مارچ کے شرکا نے پولیس پر پتھراو کیا اور مشتعل مظاہرین نے ایس پی ماڈل ٹاون رائے وقار کی گاڑی کو اپنے ''غیض و غضب‘‘ کا نشانہ بنایا۔ لاہور میں پی ٹی آئی کے کارکنوں کی گرفتاریوں کے آپریشن کی نگرانی کرنے والے ڈی آئی جی آپریشن سہیل چوہدری کی ایک خاتون کے ساتھ چند نامناسب تصاویر کو وائرل کر دیا گیا ہے۔ پولیس نے پی ٹی آئی کے ایک مقامی رہنما کے گھر سے بڑی مقدار میں اسلحہ برآمد کرنے کا دعویٰ کیا ہے۔
سنگین صورتِ حال اور ذاتی مفادات
ڈی ڈبلیو سے گفتگو کرتے ہوئے پاکستان کے ایک سینئیر تجزیہ کار سجاد میر نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ''پاکستان اس وقت سقوط ڈھاکہ کے وقت سے بھی برے حالات کا شکار ہے۔ ملک تقسیم ہے، معیشت کمزور ہے، سلامتی کو سنگین چیلنجز درپیش ہیں، ایسے میں لانگ مارچ کے ملک پر اثرات بہت بھیانک ہو سکتے ہیں۔‘‘
سجاد میر کے مطابق حکومت اور اپوزیشن دونوں انتہائی پوزیشن لے چکے ہیں، اگر یہ دونوں ملکی مفاد میں آپس میں کوئی اتفاق رائے کی سبیل نکالیں تو ملک خطرے سے نکل سکتا ہے۔
ایک سوال کے جواب میں ان کا کہنا تھا کہ سب کو ملک کو درپیش سنگین صورتحال کا علم تو ہے لیکن پھر بھی سب اپنے اپنے مفاد سے اوپر اٹھ کر سوچنے کو تیار نہیں ہیں۔ ''ہر کوئی طاقت کے استعمال سے دباو کو بڑھا کر اپنا مقصد حاصل کرنا چاہتا ہے اور ملکی مفاد کی کسی کو پروا نہیں ہے۔‘‘