لاپتہ مہاجرین کہاں ہیں؟
19 اپریل 2018اس منصوبے کے تحت شمالی شام یا لیبیا سے بحیرہء روم عبور کر کے یورپی یونین کی رکن ریاستوں تک پہنچنے کی کوششوں میں مر جانے والے یا لاپتہ ہو جانے والے تارکین وطن کو تلاش کیا جائے گا۔
اٹلی پہنچنے والا تارک وطن کیوں مرا؟
’ہسپانوی سرحدی پولیس مہاجرین کو زبردستی واپس دھکیل رہی ہے‘
اردن میں تھری ڈی ٹیکنالوجی سے مصنوعی اعضاء کی پروڈکشن
اٹلی، یونان، مالٹا اور قبرص شام، لیبیا اور دیگر ممالک سے آنے والے تارکین وطن کی سب سے بڑی تعداد کا سامنا کرتے رہے ہیں۔ بین الاقوامی کمیشن برائے لاپتہ افراد (ICMP) کی جانب سے بدھ کے روز بتایا گیا کہ ان چاروں ممالک کے وفود گیارہ جون کو روم میں ملاقات کر رہے ہیں۔
دی ہیگ میں قائم ادارے آئی سی ایم پی کی ڈائریکٹر جنرل کیتھرین بومبرگر نے اپنے ایک بیان میں کہا ہے، ’’اگر ہم مل کر اس منصوبے پر عمل درآمد شروع کر دیتے ہیں، جو ہمیں لگ رہا ہے کہ شروع ہو جائے گا، تو یہ ایک تاریخی اقدام ہو گا۔‘‘
اس ادارے کے مطابق دوسری عالمی جنگ کے بعد یورپ کو درپیش مہاجرین کے سب سے بڑے بحران کے تناظر میں فقط اطالوی کوسٹ گارڈز اور بحریہ نے ہی بحیرہء روم کے پانیوں سے، گزشتہ ایک دہائی کے دوران، قریب آٹھ ہزار لاشیں نکالی ہیں۔
بومبرگر کے مطابق مختلف ممالک کے درمیان اس تعاون سے بحیرہ روم میں ہلاک یا لاپتہ ہو جانے والے افراد سے متعلق ٹھیک ٹھیک معلومات حاصل ہو پائیں گی۔ بومبرگر نے بتایا کہ اس اجلاس میں لیبیا اور مصر کو بھی بہ طور مبصر شرکت کی دعوت دی گئی ہے۔
یہ بات اہم ہے کہ رواں برس کے آغاز سے اب تک قریب اٹھارہ ہزار تارکین وطن سمندری راستے سے یورپ پہنچے ہیں۔ بین الاقوامی ادارہ برائے مہاجرت OIM کا کہنا ہے کہ اس دوران قریب 559 تارکین وطن ہلاک یا لاپتہ بھی ہو گئے۔
اس پروجیکٹ کے لیے سوئٹزرلینڈ نے قریب سوا تین لاکھ یورو عطیہ کرنے کا اعلان کیا ہے۔
ع ت / م م