لاکھوں پاکستانیوں کے خط غربت سے نیچےجانےکا خدشہ، ورلڈ بینک
7 اکتوبر 2022عالمی بینک کی چھ اکتوبر کو جاری کی گئی اس رپورٹ کا عنوان ''پاکستان ڈویلپمنٹ اپڈیٹ 2022 ''ہے۔ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ 2022 ء میں پاکستان میں شرح نمودو فیصد رہے گی، جو سال 2024 ء میں3.2 فیصد ہو جائے گی جبکہ مہنگائی کی شرح میں ممکنہ طور پر23 فیصد تک پہنچ سکتی ہے۔ رپورٹ میں مزید کہا گیا ہے کہ سالانہ بنیادوں پر 2022 ء میں تجارتی خسارہ اپنی بلند ترین سطح پر تقریباً 44.8 بلین ڈالر تک پہنچ گیا۔ کئی ماہرین کا خیال ہے کہ یہ خسارہ مذید بڑھے گا کیونکہ پاکستان میں نو ملین ایکٹرز سے زیادہ زرعی رقبہ سیلابوں کی وجہ سے برباد ہوگیا ہے، جس کی وجہ سے چاول، گندم، کپاس اور کئی دوسری فصلوں کی درآمدات بڑھیں گی۔
کئی ملین پاکستانی سیلاب متاثرین کو غذائی بحران کا سامنا
رپورٹ پر تبصرہ
کچھ ماہرین نے اس رپورٹ کو حقیقت پسندانہ قرار دیا ہے جبکہ کچھ نے اس میں خامیوں کی نشاندہی کی ہے۔ کراچی میں مقیم معروف معیشت دان ڈاکٹر شاہدہ وزارت کا کہنا ہے کہ ورلڈ بینک نے غربت کے حوالے سے اعداد و شمار کا تخمینہ کم لگایا ہے۔ انہوں نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ''میرا خیال ہے کہ غربت ورلد بینک کے اندازے سے بہت زیادہ بڑھے گی۔ ممکنہ طور پر 20 ملین کے قریب لوگ غربت کی لکیر سے نیچے جا سکتے ہیں۔ سابق وزیر خزانہ مفتاح اسماعیل ورلڈ بینک کے اعدادوشمار کو حقیقت پسندانہ قرار دیتے ہیں۔
اسحاق ڈار چوتھی مرتبہ وزیر خزانہ بن گئے
نقصان کا اندازہ کیسے لگایا جاتا ہےِ؟
پاکستان میں سیلاب سے نقصانات کے اندازے کے حوالے سے مختلف تخمینے آئے ہیں۔ حکومت نے ابتدائی طور پر اس نقصان کا تخمینہ دس بلین ڈالرز، پھر اٹھارہ بلین ڈالرز، پھر تیس بلین اور ستمبر میں چالیس بلین ڈالر لگایا۔ پاکستان میں ذرائع ابلاغ کے کچھ حصوں نے یہ دعویٰ کیا ہےکہ ورلڈ بینک نے یہ تخمینہ چالیس بلین ڈالر لگایا ہے لیکن اس ضمن میں ورلڈ بینک کی طرف سےجاری کی گئی پریس ریلیز میں ایسا کوئی تذکرہ نہیں ہے۔
کچھ ناقدین کا خیال ہے کہ سندھ میں کچھ جاگیر دار اس طرح کے اعداد و شمار کو بڑھا چڑھا کر پیش کر رہے ہیں تاکہ نقصانات کے لئے زیادہ سے زیادہ معاوضے کا مطالبہ کیا جائے۔ مفتاح اسماعیل کا کہنا ہے کہ چالیس بلین ڈالرز کا تخمینہ بہت بڑا ہے اور یہ حقیقت پسندانہ نہیں۔ تاہم وہ اس بات کو رد کرتے ہیں کہ کوئی ان اعداد وشمار کو بڑھا چڑھا سکتا ہے۔ ''ورلڈ بینک، اقوام متحدہ اور دوسرے اداروں نے نقصانات کا اندازہ تباہی سے لگایا ہوگا۔ یعنی یہ کہ فصلیں کتنی تباہ ہوئی ہیں، جانور کتنے ہلاک ہوئے ہیں، کتنی سٹرکیں، گھر، عمارات، پل اور دیگر چیزیں منہدم ہوئیں یا پھران کو نقصان پہنچا۔ پھر ان کی قیمتوں کا اندازہ لگایا گیا ہوگا۔ تو اس طرح انہوں نے نقصان کا تخمینہ لگایا ہوگا۔''
کیا کچھ کیا جا سکتا ہے؟
خیال کیا جاتا ہے کہ پاکستان میں پہلے ہی چار کروڑ سے زیادہ افراد غربت کی زندگی گذار رہے ہیں ۔ مفتاح اسماعیل کا کہنا ہے کہ مزید لوگوں کو غربت کے درجے میں گرنے سے بچایا جا سکتا ہے۔ ''میرے خیال میں اگر سڑکوں کی تعمیر، پلوں کی مرمت، اور دوسرے کام شروع کیے جائیں اور اس میں مقامی افراد کو روزگار مل جائے گا، تو ممکنہ طور پر لوگوں کو غربت کی لکیر سے نیچے جانے سے روکا جا سکتا ہے۔
تاہم ڈاکٹر شاہدہ وزارت کا کہنا ہے کہ خود اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل نے اس بات کو تسلیم کیا ہے کہ پاکستان دوسرے ممالک کی وجہ سے اس تباہی کا شکار ہوا ہے۔ اس خاتون ماہر اقتصادیات کا کہنا تھا، ''ضرورت اس امر کی ہے کہ پاکستان قرضوں کی معافی کی بات کرے۔ اس کے علاوہ اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل نے یہ جویز بھی دی تھی کہ ہم قرضوں کی ادائیگی کو ایسی نوعیت کی سرمایہ کاری میں لگائیں جس سے کم از کم کاربن کا اخراج ہو۔ میں اس تجویز کی تائید کرتی ہوں۔''