لاہور: بین الاقوامی کتاب میلے نے تمام سابقہ ریکارڈ توڑ دیے
7 فروری 2016ڈی ڈبلیو سے خصوصی گفتگو کرتے ہوئے کتاب میلے کے منتظم اور لاہور انٹرنیشنل بک فیئر ٹرسٹ کے چیئرمین زبیر سعید نے بتایا کہ صرف جمعے کے روز ہی کتاب میلے میں آنے والے لوگوں کی تعداد اس قدر زیادہ تھی کہ نہ صرف لوگوں کے لیے شدید رش میں خریداری کرنا ممکن نہیں رہا تھا بلکہ ایکسپو سینٹر کی وسیع پارکنگ بھی ناکافی ثابت ہوئی تھی۔
انہوں نے ڈی ڈبلیو کو بتایا:’’اس سال ہمیں اس میلے میں شرکت کے خواہش مند 40 سے زائد پبلشرز سےمعذرت کرنا پڑی ہے کہ ہم جگہ کم ہونے کی وجہ سے انہیں سٹال نہیں دے سکتے۔ اس سال ہم اردو ڈائجسٹ، اشاعتی جریدوں اور کئی انفرادی پبلشرز کو بھی جگہ نہیں دے سکے ہیں۔ ہم نے وفاقی وزیر تجارت خرم دستگیر سے رابطہ کر کے کہا ہے کہ حکومت آئندہ برسوں میں ہمیں مزید ہال فراہم کرے تاکہ اس علمی روایت کو بہتر طریقے سے آگے بڑھایا جا سکے۔‘‘
زبیر سعید نے کہا کہ حکومت کراچی میں کتاب میلے لیے کم پیسوں میں جگہ فراہم کرتی ہے جبکہ لاہور کتاب میلے کے پانچ دنوں کے لیے حکومت کو 65 لاکھ روپے دینا پڑے ہیں:’’اگر حکومت اس سلسلے میں ہمیں کچھ رعایت دے دے تو پھر بہت سے چھوٹے پبلشرز کے لیے بھی اس میلے میں سٹال لگانا ممکن ہو جائے گا۔‘‘
زبیر سعید کے مطابق اب تک ہونے والی کتابوں کی سیل ایک کروڑ روپے سے تجاوز کر چکی ہے جو کہ ایک ریکارڈ ہے۔ بہت سے سٹالز پر سٹاک ختم ہو چکا ہے۔ نیشنل بک فاؤنڈیشن کے سٹال پر موجود ایک سیلز مین نے بتایا کہ انہیں اپنے گاہکوں سے معذرت کرنا پڑ رہی ہے کہ ’ہماری کتابوں کی پوری رینج اب کل ہی دستیاب ہو سکے گی۔ ہم نے ہنگامی طور پر نیا سٹاک منگوانے کا آرڈر دے دیا ہے‘۔ یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ نایاب کتابوں کے ایک سٹال پر سولہویں صدی کی ایک ایسی کتاب بھی فروخت کے لیے پیش کی گئی ہے، جس کی قیمت پانچ لاکھ روپے ہے۔
یہ بات قابل ذکر ہے کہ لاہور انٹرنیشل بک فیئر 4 فروری کو شروع ہوا تھا اور یہ 8 فروری تک جاری رہے گا۔ پچھلے سال اس میلے میں 270 سٹالز لگے تھے جبکہ اس سال یہاں 285 سٹالز لگائے گئے ہیں۔
اس بار اس میلے میں امریکا، بھارت، برطانیہ، ترکی اور ایران سمیت سات ملکوں کے بین الاقوامی پبلشرز نے بھی 30 سٹالز لگائے ہیں۔ فرانس کے ایک اشاعتی ادارے نے بھی پہلی مرتبہ اس میلے میں شرکت کی ہے۔
رفاقت نامی ایک گاہک نے بتایا کہ پبلشرز میں بڑھتی ہوئی مسابقت کی وجہ سے اس سال پچھلے برسوں کے مقابلے میں گاہکوں کو زیادہ ڈسکاؤنٹ مل رہا ہے۔ انگریزی ادب کی ہزاروں روپے قیمت والی مہنگی شاہکار کتابوں کے ہلکے ایڈیشن صرف تین سو روپے میں مل رہے ہیں۔ اس کتاب میلے میں مختلف زبانوں میں متفرق موضوعات پر لکھی جانے والی ہر طرح کی کتابیں دستیاب ہیں۔
ایک نوجوان علی نقوی نے بتایا کہ اس کتاب میلے میں فیملیز کا آنا بہت خوش آئند ہے۔ ان کے بقول یہاں بچوں کی کتابوں سے لے کر بڑے بڑے سکالرز تک کی دلچسپی کی کتابیں بھی موجود ہیں:’’لوگ اس میلے کا سارا سال انتظار کرتے ہیں۔ دہشت گردی سے متاثرہ معاشرے میں یہ ایک اچھا سائن ہے۔‘‘
میلے میں موجود ایک اور شخص نسیم چوہدری کا کہنا تھا کہ ایسے میلوں کاانعقاد ڈویژن لیول پر بھی کیا جانا چاہیے اور کاروباری اداروں کو اسے سپانسر کرنا چاہیے۔
اس میلے میں بچوں کے لیے فیس پینٹنگز اور دیگر دلچسپیوں کا بھی اہتمام کیا گیا ہے۔ ایک خاتون شاہدہ زبیر کا کہنا تھا کہ ایسے میلوں سے معاشرے میں علم کے فروغ میں مدد ملتی ہے اور ایسی علمی سرگرمیاں معاشرے کو معتدل اور پُر امن بنانے میں مددگار ثابت ہوتی ہیں۔