لندن میں لیبیا سے متعلق عالمی طاقتوں کا اجلاس
29 مارچ 2011برطانوی وزیر اعظم کیمرون اور فرانسیسی صدر سارکوزی نے کل پیر کو کہا تھا کہ لیبیا میں معمر قذافی کو خود ہی اقتدار چھوڑ دینا چاہیے۔ لیبیا کے خلاف فوجی آپریشن کے آغاز میں مرکزی کردارا ادا کرنے والے ان دونوں رہنماؤں نے قذافی کے حامیوں کو بھی یہ مشورہ دیا کہ اس سے پہلے کہ بہت دیر ہو جائے، انہیں قذافی کا ساتھ چھوڑ دینا چاہیے۔
معمر قذافی کے حامی دستوں پر مغربی ملکوں کی سربراہی میں کیے جانے والے فضائی حملوں کے بعد سے لیبیا میں حکومت مخالف باغیوں کے حوصلے مزید بلند ہو چکے ہیں۔ ان باغیوں نے اب اپنی وہ مسلح کوششیں تیز تر کر دی ہیں، جن میں وہ قریب چھ ہفتوں سے قذافی کے 41 سالہ دور کے خاتمے کے لیے کوشاں ہیں۔
لندن میں آج ہونے والے اجلاس میں ممکنہ طور پر ایک ایسا ورکنگ گروپ قائم کر دیا جائے گا، جس میں عرب ریاستیں بھی شامل ہوں گی۔ یہ گروپ لیبیا کے عوام کے لیے طویل المدتی بنیادوں پر امداد کے عمل کو مربوط بنائے گا۔ اس کے علاوہ اس گروپ کا ایک اہم کام یہ بھی ہو گا کہ وہ لیبیا کے بحران پر بین الاقوامی رد عمل سے متعلق سیاسی رہنمائی کرے۔
سفارتی ذرائع کے بقول برطانیہ نے اس کانفرنس کے لیے محمود جبریل کو بھی مدعو کیا ہے۔ وہ لیبیا میں باغیوں کی عبوری قومی کونسل کے رکن ہیں مگر انہیں اس کانفرنس کے لیے باضابطہ طور پر دعوت نہیں دی گئی۔
اس کانفرنس میں قریب چالیس ملکوں اور بین الاقوامی تنظیموں کے نمائندے لیبیا میں داخلی بد امنی سے متاثرہ شہریوں کی انسانی بنیادوں پر کو تیز رفتار بنانے پر تبادلہ خیال کریں گے۔ ساتھ ہی ایک ایسے سیاسی عمل کے آغاز کا مطالبہ بھی کیا جائے گا، جس کی تکمیل پر لیبیا کے عوام اپنے مستقبل کا تعین خود کر سکیں۔
لیبیا سے متعلق لندن کانفرنس کے سلسلے میں سفارتی کوششیں تیز ہوتی جارہی ہیں۔ اسی دوران اٹلی نے اب ایک ایسے ممکنہ حل کی تجویز پیش کردی ہے جس میں فائر بندی کی بات بھی کی گئی ہے اور مکنہ طور پر معمر قذافی کی جلاوطنی کی بھی۔ ساتھ ہی لیبیا میں باغیوں کے علاوہ قبائلی رہنماؤں سے بھی مذاکرات کیے جانا چاہیئں۔ دوسری طرف لیبیا میں باغیوں نے کھل کر کہا دیا ہے کہ وہ قذافی کے حامیوں کے ساتھ کسی قسم کی مصالحت کے حق میں نہیں ہیں۔
رپورٹ: عصمت جبیں
ادارت: شامل شمس