ليبيا: جنگ سے متاثرہ مہاجرين
6 اپریل 2011جنگ کی زد ميں آئے ہوئے علاقوں سے عام شہری مسلسل فرار ہورہے ہيں اور وہ اجدابيا شہر کا رخ بھی کررہے ہيں۔اتحادی فضائی حملوں کی مدد سے باغيوں کو اجدابيا پر قبضہ کئے ہوئے کوئی دو ہفتے ہوچکے ہيں ليکن يہ شہر ابھی تک بھوت پريت کا مسکن نظر آتا ہے۔ دن ميں ايک بار کاريں بن غازی سے روٹياں لے کر يہاں آتی ہيں۔ اس وقت ہی شہر کے چند باسی اپنے گھروں سے باہر آنے کی ہمت کرتے ہيں۔ ايک خاتون حمديہ نے بتايا:
’’ اس سڑک پر اب صرف ہمارا گھرانہ ہی رہ رہاہے۔ ميرا شوہر بيمار ہے۔ اب ہم چار بچوں کے ساتھ گھر ميں بيٹھے ہيں اور خوفزدہ ہيں۔‘‘
ايک اور 70 سالہ خاتون نے کہا:
’’ حملے بہت خوفناک تھے۔ ميں روٹی شہر سے باہر صحرا ميں لے جارہی ہوں۔ وہاں ميرے گھروالے ميرا انتظار کررہے ہيں۔‘‘
ابھی تک بہت سے شہری اپنے گھر آنے سے ڈررہے ہيں۔ صرف ايک ہی دکان کھلی ہوئٍ ہے جس کے سامنے چند مرد بيٹھے ہوئے ہيں۔ اُن ميں سے ايک نے کہا کہ قذافی کے فوجی فہرستيں لئے شہر ميں گھوم رہے تھے اور وہ تمام مخالفين کو پکڑ کر لے گئے۔ کئٍ بچے اور عورتيں گوليوں سے زخمی ہو کر چل بسے۔
150 کلوميٹر دور باغيوں کے محفوظ گڑھ بن غازی تک ميں بھی خوف محسوس کيا جارہا ہے۔ يہاں ہلال احمر نے اُن افراد کے لئے مہاجر کيمپ بنائے ہيں جو اپنے عزيزو اقارب کے پاس قيام نہيں کرسکتے۔ يہاں ايک بھارتی فرم کئی منزلہ مکانات تعمير کرنا چاہتی تھی۔ اب اس کے عملے کے لئے تعمير شدہ گھروں ميں اجدابيا، راس لانوف اور بريقہ جيسے جنگ زدہ شہروں سے آنے والے مہاجرين مقيم ہيں۔ يہ مکانات صاف ستھرے ہيں۔ ايک لڑکے مصطفٰی نے جو تصوير بنائی ہے اس ميں اس کے گھر پر ميزائل گرتے دکھايا گيا ہے۔ اُس نے بتايا کے آگ کو ہمسايے نے اپنا پانی کا ٹينک کھول کر بجھايا تھا۔
قاہرہ سے آنے والی امينہ، اجدابيہ ميں 20 سال سے رہ رہی ہے۔ اُس نے بتايا کہ اس کا شوہر ايک ماہ سے لاپتہ ہے۔ وہ ٹرک ڈرائيور کے طور پر باغيوں کے لئے کام کررہا تھا۔امينہ نے بتايا کہ قاہرہ ميں اُس کے عزيزوں کو اس کی خيريت کے بارے ميں کچھ معلوم نہيں کيونکہ قذافی نے غير ممالک کی ساری ٹيليفون لائنيں بند کردی ہيں اور موبائل فون کے نيٹ ورک ميں خلل ڈال ديا گيا ہے۔
رپورٹ: ايستھر صعوب،مشرقی ليبيا/ ترجمہ: شہاب احمد صدیقی
ادارت: کشور مصطفیٰ