ليبيا ميں نيٹو کا دھندلا کردار
26 اگست 2011بار باراس طرح کی قياس آرائياں کی جا رہی ہيں کہ نيٹو کے رکن ممالک باغيوں کو اسلحہ، فوجی تربيت اور اپنی خفيہ ايجنسيوں کے ذريعے حاصل ہونے والی معلومات بھی فراہم کر رہے ہيں۔ اس سلسلے ميں بہت سے سوالات جواب طلب ہيں۔
نيٹو کے سیکرٹری جنرل آندرس فوگ راسموسن بار بار يہی دعوے کرتے ہيں کہ نيٹو ليبيا ميں اپنی جنگی کارروائيوں کے دوران اُس دائرہء کار کی سختی سے پابندی کر رہا ہے جو اُسے اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی قرارداد کے تحت سونپا گيا ہے: ’’اس سارے تنازعے ميں ہمارا ہدف ليبيا کے عوام کی حفاظت ہے۔‘‘
کہنے کی حد تک تو يہ سب کچھ صحيح ہے، ليکن نيٹو جس طرح سے عملی طور پر اپنا کردار ادا کر رہا ہے، وہ بہت قابل غور ہے۔
بہت سے مبصرين کا کہنا ہے کہ نيٹو نے ساری جنگ کے دوران باغيوں کو اپنے فضائی حملوں اور بمباری کے ذريعے بھر پور مدد دی اور يہ مدد اب بھی جاری ہے۔ نيٹو کے فضائی حملوں کے بغير باغيوں کا آگے بڑھنا ناممکن تھا۔ کيا نيٹو کے بعض ممالک کی اسپيشل فورسز باغيوں کو زمين پر بھی مدد دے رہی ہيں؟ راسموسن يہ بتانا نہيں چاہتے تھے: ’’ايسے کوئی بری فوجی دستے نہيں، جو نيٹو کی کمان کے تحت ہوں۔‘‘
ليکن يہی نکتہ نہايت اہم ہے۔ نيٹو کو اصولی طور پر صرف فضا سے حملے کرنے کا محدود اختيار حاصل ہے۔ ليکن درحقيقت اُس کے بعض رکن ممالک ليبيا کے باغيوں کی اس سے کہيں زيادہ مدد کر رہے ہيں اور اخبارات اس بارے میں مسلسل زيادہ خبريں شائع کر رہے ہيں کہ امريکہ، فرانس اور برطانيہ کی اسپيشل فورسز ليبيا ميں موجود ہيں اور باغيوں کو تربيت دے رہی ہيں۔ اس کے علاوہ وہ باغيوں کو اسلحہ اور اپنے خفيہ اداروں اور جاسوسی کے آلات سے حاصل ہونے والی معلومات بھی فراہم کر رہی ہيں۔
برطانوی وزير دفاع فوکس نے کھل کر کہا ہے کہ نيٹو اپنے خفيہ اداروں اور سراغرسانی کے آلات کو قذافی اور دوسرے حکومتی اراکين کی تلاش ميں استعمال کر رہا ہے۔ ميڈيا میں تو يہ خبريں تک بھی ہيں کہ برطانيہ کے خصوصی دستوں کے فوجی باغيوں کے سے کپڑے پہنے قذافی کے تعاقب اور تلاش ميں حصہ لے رہے ہيں۔
يہ سب کچھ سلامتی کونسل کی قرارداد کے دائرے سے خارج ہے۔ يہ بھی ناممکن ہے کہ نيٹو کی قيادت کو اس کا علم نہ ہو، ليکن نيٹو کے ہيڈ کوارٹر ميں کوئی بھی اس کی تصديق کرنے پر تيار نہيں۔
رپورٹ: ليون اشٹيبے / شہاب احمد صديقی
ادارت: مقبول ملک