1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

’لڑکے سے زیادہ لڑکی ذمہ دار‘ بھارتی معاشرے کی سوچ

کشور مصطفیٰ4 مارچ 2015

بھارت کی اطلاعات و نشریات کی وزارت نے منگل کو تمام ٹیلی وژن چینلز کو حکم دیا ہے کہ وہ 23 سالہ طالبہ کے گینگ ریپ اور قتل پر بنائی گئی ڈاکومنٹری فلم ’ دی ڈاٹر آف انڈیا‘ کو نشر نہ کریں۔

https://p.dw.com/p/1El21
تصویر: picture-alliance/dpa

یہ امر ابھی واضح نہیں ہے کہ آیا نئی دہلی حکومت اس ڈاکومنٹری کو بلاک کرنے میں کامیاب رہے گی؟ تاہم اس بارے میں ملک میں ہونے والی سیاسی گرما گرمی برطانوی خاتون فلمساز Leslee Udwin کی ڈاکومنٹری ’’انڈیاز ڈاٹر‘‘ یعنی ’’بھارت کی بیٹی‘‘ کی انڈیا میں اسکریننگ کے عمل کو التوا کا شکار ضرور بنا دے گی۔

ڈاکومنٹری کیوں متنازعہ ہوئی؟

اس فلم میں فزیو تھراپی کی تعلیم حاصل کرنے والی طالبہ کے 2012ء میں ایک چلتی بس میں ہونے والے گینگ ریپ میں ملوث مجرموں میں سے ایک مُکیش سنگھ کا انٹرویو بھی شامل کیا گیا ہے۔ اس انٹرویو میں مجرم نے مقتولہ کو اس واقعے کا ذمہ دار ٹھہراتے ہوئے جو بیان دیا تھا وہ پوری دنیا کے لیے ایک صدمے سے کم نہیں۔ 2013ء میں جیل میں کیے گئے اس انٹرویو میں مجرم مُکیش سنگھ کا کہنا تھا، ’’جسمانی زیادتی یا ریپ کے کیس میں لڑکے سے زیادہ لڑکی ذمہ دار ہوتی ہے‘‘۔ سنگھ نے یہ تک کہہ ڈالا کہ چلتی بس میں جس وقت اُس کے ساتھ زیادتی کی جا رہی تھی اُس وقت اُسے مزاحمت نہیں کرنا چاہیے تھی۔ موت کی سزا کا حقدار قرار دیے جانے والے تین مجرموں میں سے ایک مُکیش سنگھ کے بقول، ’’ایک باحیاء اور شائستہ لڑکی رات کے نو بجے یوں آوارہ پھرتی نظر نہیں آتی۔‘‘

Leslee Udwin Regisseurin India's Daughter
ڈاکومنٹری ’’انڈیاز ڈاٹر‘‘ کی برطانوی فلمساز Leslee Udwinتصویر: Chandan Khanna/AFP/Getty Images

اکثریتی مردوں کی سوچ کی عکاسی

زنا بالجبر کے مرتکب مجرم کا اجتماعی زیادتی کے وحشیانہ واقعے کا شکار ہونے والی ایک نوجوان خاتون کے بارے میں یہ کہنا کہ ’’جسمانی زیادتی یا ریپ کے کیس میں لڑکے سے زیادہ لڑکی ذمہ دار ہوتی ہے‘‘ دنیا بھر کے لیے بھلے صدمے کا باعث کیوں نہ ہو لیکن بھارت میں زیادہ تر لوگوں میں ایسا کوئی احساس نہیں پایا جاتا۔ 1.2 بلین کی آبادی والے ملک بھارت میں لاکھوں مردوں کو یہی سکھایا جاتا ہے کہ معاشرے میں عورت کے لیے لباس کا چناؤ اور اُس کی سرگرمیوں کی حدود واضح ہیں جس پر عمل کرنا عورتوں پر فرض ہے۔ بعض مردوں کے مطابق اگر وہ ایسا نہیں کرتیں تو ان کے ساتھ ہونے والی جسمانی زیادتی کی ذمہ دار وہ خود ہیں۔

دائیں بازو کے ہندو سیاستدانوں کی بھی یہی سوچ

آل انڈیا ڈیمو کریٹک ویمن ایسوسی ایشن کی سربراہ جگمتی سنگون کا کہنا ہے کہ مجرم سنگھ نے اپنے بیان میں وہ کچھ کہا ہے جو اُس نے اپنے معاشرے کے لیڈروں سے سُنا ہے۔ انہوں نے کہا، ’’مُکیش سنگھ ہمارے لیڈروں کی طرف سے نوجوان مردوں کے لیے قائم کی جانے والی مثالوں کی پیروی کر رہا ہے۔‘‘ بھارتیہ جنتا پارٹی کے ایک چوٹی کے سیاستدان اور ریاست ہریانہ کے موجودہ چیف منسٹر منوہر لال خطر Manohar Lal Khattar نے گزشتہ برس ایک بیان میں کہا تھا، ’’اگر ایک لڑکی مہذب لباس میں ملبوس ہے تو اُس کی طرف کوئی لڑکا غلط نگاہوں سے نہیں دیکھے گا۔ آزادی کو محدود ہونا چاہیے۔ یہ مختصر لباس مغربی ثقافت کے اثرات ہیں۔ ہماری روایات لڑکیوں کو شائستہ لباس پہننے کا درس دیتی ہیں۔‘‘

Indien Jahrestag Gruppenvergewaltigung
خواتین جتنا چاہیں احتجاج کر لیں بھارت ایک پدرسری معاشرہ تھا اور ہےتصویر: Reuters

2009ء میں بھارت کی جنوبی ریاست کرناٹک میں جب دائیں بازو کے انتہا پسند ہندوؤں کے ایک گروپ نے ایک کلب میں خواتین پر حملہ کیا تھا، تب اُس وقت کے ریاستی وزیر اعلیٰ بی ایس ییدورپا نے کہا تھا، ’’حملہ آور لڑکے، لڑکیوں کی مخلوط سرگرمیوں اور ان کے ہاتھ میں ہاتھ ڈال کر سر عام پھرنے کے کلچر کو ختم کرنا چاہتے ہیں۔‘‘

بد قسمتی سے نئی دہلی کی ایک چوٹی کی خاتون سیاستدان بھی 2008ء میں اسی قسم کا ایک بیان دے چُکی ہیں جس سے اندازہ ہوتا ہے کہ بھارتی معاشرے میں ایک دقیانوسی اور خواتین کے مساوی حقوق کے خلاف ایک روایتی سوچ رچی بسی ہوئی ہے۔ تب شیلا ڈکشٹ نے اُس وقت آدھی رات کو اپنے دفتر سے گھر لوٹنے والی ایک خاتون صحافی کو گولی مار کر ہلاک کر دینے کے واقعے پر بیان دیتے ہوئے کہا تھا، ’’صُبح کے تین بجے ایسے شہر میں اکیلے نکل جانا غلطی ہے۔ خواتین کو اس قدر مہم جویانہ سرگرمیاں نہیں کرنی چاہییں۔‘‘

برطانوی خاتون فلم ساز Leslee Udwin کی ڈاکومنٹری ’’انڈیاز ڈاٹر‘‘ کو 8 مارچ بروز اتوار خواتین کے عالمی دن کے موقع پر بھارت سمیت متعدد ممالک میں دکھایا جانا تھا۔