’’لہو اور تلوار کے گیت‘‘فاطمہ بھٹو کی نئی کتاب
8 مئی 2010اپنی پھوپھی یعنی بے نظیر بھٹو سے مشابہت رکھنے والی فاطمہ نے اس کتاب میں اپنی آنٹی پر اقتدار کی ہوس رکھنے اور اپنے ہی بھائی میر مرتضی بھٹو کے قتل کی ذمہ داری جیسے الزامات لگائے ہیں۔ فاطمہ نے نئی دہلی میں اپنی کتاب کے تشہیر کے موقع پر اے ایف پی کو بتایا: ’’ میری ہمیشہ سے خواہش تھی کہ میں اپنے والد کی یاداشتوں کو ایک کتاب کی شکل میں منظر عام پر لاؤں‘‘۔
اپنی کتاب ’’لہو اور تلوار کے گیت‘‘ میں فاطمہ نے اپنے والد کے قتل کی منظر کشی کی ہے۔ فاطمہ لکھتی ہیں کہ یہ بے نظیر بھٹو کے راستے سے ’’ایک باغی‘‘ کے ہٹائے جانے کی کوشش تھی جس میں اس وقت کی حکومت کا ہاتھ تھا۔ بے نظیر بھٹونے اپنے بھائی کے قتل کو سیاسی مخالفین کی سازش قرار دیا تھا۔
فاطمہ کہتی ہیں کہ انہوں نے یہ کتاب اپنے والد کو خراج عقیدت پیش کرنے ،عوام کو حقائق سے آگاہ کرنے اور اپنے والد کے برے امیج کو اچھا کرنے کے لئے لکھی ہے۔
پاکستان کے مقبول سیاسی خاندان ’’بھٹو‘‘ کو اس وقت غم کے بادلوں نے اپنی لپیٹ میں لیا جب پاکستان کے پہلے منتخب وزیراعظم ذولفقار علی بھٹو کو 1979ء میں جنرل ضیاء الحق کی فوجی آمریت کے دوران پھانسی دے دی گئی۔ اس کے بعد کی ہر دہائی میں بھٹو خاندان کے کسی نہ کسی فرد کی ناگہانی ہلاکت ہوئی۔
ذوالفقار علی بھٹو کی پھانسی کے بعد ان کے دونوں بیٹوں مرتضی اور شاہنواز نے ’’الذولفقار‘‘کے نام سے ایک گوریلا تنظیم بنائی جس کا مبینہ مقصد اپنے والد کا بدلہ لینا اور جنرل ضیاء الحق کی حکومت ختم کرنا تھا۔ اس تنظیم پر فائرنگ اور بم دھماکوں میں ملوث ہونے اور 1981 میں پاکستانی مسافر طیارے کو اغوا کرنے کے الزامات لگائے گئے تھے۔
فاطمہ بھٹو نے اپنی کتاب میں ان الزامات کو غلط ثابت کرنے کی کوشش کی ۔ ان کے بقول اس کام کے لئے انھوں نے چھ سال تک اپنے والد کے ساتھیوں کی کھوج لگائی اور معلومات اکٹھی کیں۔
اپنی کتاب میں فاطمہ بھٹو نے اپنی پھوپھی بے نظیر کو جہاں تنقید کا نشانہ بنایا وہی ان کے ساتھ گزارے ہوئے اچھے دنوں کا حوالہ بھی دیا ہے۔ فاطمہ لکھتی ہیں کہ جب وہ چھوٹی تھیں تو بے نظیر ان کی پسندیدہ آنٹی تھیں جو ان کے ساتھ کھیلتی تھیں اور انہیں کہانیاں سنایا کرتی تھی۔ فاطمہ کے مطابق اقتدار میں آنے بعد بے نظیر بہت بدل گئی تھیں۔ فاطمہ اور ان کے دونوں بھائی بے نظیر بھٹو کے بچوں سے کوئی رابطہ نہیں رکھتے۔ فاطمہ کے مطابق ’’ان سے رابطے کے دروازے بہت پہلے بند ہوگئے تھے‘‘۔
رپورٹ: بریشنا صابر
ادارت : شادی خان سیف