Unruhen Libyen
21 فروری 2011انسانی حقوق کی تنظیم ہیومن رائٹس واچ کے مطابق اب تک یہ احتجاجی لہر زیادہ تر صرف طرابلس اور بن غازی کے شہروں میں دیکھنے میں آ رہی تھی۔ اب لیکن عوامی غصے کی یہی لہر کئی دیگر شہروں تک بھی پہنچ گئی ہے۔
خبر ایجنسی روئٹرز نے طرابلس سے موصولہ رپورٹوں میں لکھا ہے کہ ملکی دارالحکومت میں نظر آنے والے مظاہرے اب شہر کے مضافات تک بھی پہنچ گئے ہیں۔ عرب ٹیلی وژن ادارے الجزیرہ کے مطابق ملکی دارالحکومت میں آج پیر کے روز مزید تقریباﹰ 60 افراد مارے گئے۔ اس کے علاوہ تیونس کے ساتھ سرحد کے قریب لیبیا کا ایک اور شہر الزاویہ بھی اس وقت انتشار اور فسادات کی لپیٹ میں ہے، جہاں سے مقامی پولیس اہلکار اب فرار ہو چکے ہیں۔
اس کے علاوہ طرابلس کے مشرق میں ایک پولیس اسٹیشن کو آگ لگا دی گئی اور اس کے سامنے پارک کی گئی متعدد گاڑیوں کو بھی نذر آتش کر دیا گیا۔ ایک اور شہر راس لنُوف میں بھی، جو تیل کی صنعت کا بڑا مرکز ہے، حکومت مخالف مظاہرے شروع ہو گئے ہیں۔
لیبیا کے ایک اخبار کی ویب سائٹ پربتایا گیا کہ اپنی آئل ریفائنری اورایک پیٹرو کیمیکل کمپلیکس کی وجہ سے مشہور اس شہر میں مظاہروں کے دوران نقصانات کو کم سے کم رکھنے کے لیے صنعتی کارکنوں، سیاسی ورکروں اورعام شہریوں پر مشتمل کمیٹیاں قائم کی جا رہی ہیں۔ عینی شاہدین نے Ras Lanuf نامی شہر میں مظاہروں کے دوران توڑ پھوڑ کے واقعات کی اطلاعات بھی دی ہیں۔
لیبیا میں اتوار اور پیر کی درمیانی شب معمر قذافی کے بیٹے سیف الاسلام قذافی نے ٹیلی ویژن پر خطاب میں اپنے ہم وطنوں کو ملک میں خانہ جنگی سے خبردار کرتے یہ بھی کہا تھا کہ غیر ملکی ذارئع ابلاغ ملک میں ہونے والے ہنگاموں میں ہلاک شدگان کی تعداد بڑھا چڑھا کر بیان کر رہے ہیں۔ ان کے بقول اب تک لیبیا میں 200 نہیں بلکہ صرف 84 افراد ہلاک ہوئے ہیں۔ تاہم تازہ ترین رپورٹوں میں معمر قذافی کے خلاف احتجاجی تحریک IFHR کے سربراہ کے حوالے سے بتایا گیا ہے کہ لیبیا میں اب تک ہلاک ہونے والوں کی تعداد 300 اور 400 کے درمیان بنتی ہے۔
لیبیا میں اس وقت یہ چہ مگوئیاں بھی ہو رہی ہیں کہ معمر قذافی کہاں ہیں۔ لیبیا کے ایک اعلیٰ سفارت کار نے ایک عرب ٹیلی وژن کو بتایا کہ عشروں پہلے آنے والے سبز انقلاب کے رہنما معمر قذافی اس وقت ملک میں نہیں ہیں، بلکہ وہ فرار ہو کر شاید وینزویلا کے لیے روانہ ہو گئے ہیں۔
ان حالات میں لیبیا میں مقامی آبادی کے سب سے بڑے قبیلے کے سربراہ نے اتوار کی رات معمر قذافی کو یہ دھمکی بھی دے دی کہ اگر ملک میں خونریز جھڑپیں آئندہ 24 گھنٹوں میں بند نہ ہوئیں، تو اس قبیلے کے لوگ اپنے علاقوں میں تیل کی صنعت کی معمول کی کارکردگی زبردستی روک دیں گے۔ اس قبائلی رہنما نے یہ بھی کہا کہ وہ بھی حکمرانوں کے خلاف احتجاج کرنے والے عوامی مظاہرین میں شامل ہو گئے ہیں۔ لیبیا میں اس قبیلے کے ارکان کی تعداد ایک ملین سے زیادہ ہے، جو مجموعی قومی آبادی کا تقریباﹰ چھٹا حصہ بنتی ہے۔
رپورٹ: مقبول ملک
ادارت: عاطف بلوچ