لیبیا میں نیٹو کا جنگی مشن، اختلافات کا شکار
9 جون 2011جرمن حکومت کو نیٹو کی طرف سے شدید دباؤ کا سامنا ہے۔ گزشتہ روز برسلز میں مغربی دفاعی اتحاد کے اجلاس میں امریکی وزیر دفاع رابرٹ گیٹس نے جرمنی اور پولینڈ سے لیبیا آپریشن میں حصہ لینے کا مطالبہ کیا۔ اس اجلاس میں اسپین، ترکی اور ہالینڈ کو بھی تعاون بڑھانے کے لیے کہا گیا ہے۔ یہ ممالک جزوی طور پر مدد تو کر رہے ہیں لیکن فضائی حملوں میں شریک نہیں ہیں۔
امریکی وزیر دفاع کا تنقید کرتے ہوئے کہنا تھا کہ جنگی بوجھ صرف چند ممالک کے کندھوں پر ہے۔ تنقید کے باوجود جرمنی اپنے سخت موقف پر قائم ہے۔ جرمن وزیر دفاع تھوماس دے میزیئر کا کہنا تھا، ’’ہم نیٹو کے مقاصد اور سرگرمیوں کی حمایت کرتے ہیں لیکن ہم فوجی طور پر اس کا ساتھ نہیں دے سکتے اور ہم اس پر قائم رہیں گے۔‘‘
برطانیہ اور فرانس کی جانب سے بھی لیبیا میں نیٹو جنگی مشن میں توسیع کا مطالبہ کیا جا رہا ہے۔ لیبیا جنگ میں سب سے زیادہ جنگی طیارے انہی دو ملکوں کے فراہم کردہ ہیں۔ ان ممالک کے مطابق ان کے دستوں پر دباؤ بڑھتا جا رہا ہے جبکہ فضائی حملوں میں خطیر رقم خرچ ہو رہی ہے۔
جرمن حکومت کا کہنا ہے کہ جنگ کے خاتمے کے بعد وہ لیبیا میں تعمیر نو کے لیے امدادی رقم فراہم کرسکتی ہے۔ جرمن وزیر دفاع کا کہنا تھا، ’’ہم جنگ کے بعد ذمہ داری اٹھا سکتے ہیں۔ ہم لیبیا کی تعمیر نو میں حصہ لیں گے، وہاں کے بنیادی ڈھانچوں کو دوبارہ کھڑا کرنے میں مدد فراہم کریں گے۔ پولیس کی ٹریننگ اور صاف پانی کی فراہمی جیسے منصوبوں میں کردار ادا کریں گے۔‘‘
دوسری جانب نیٹو نے یہ اعلان بھی کیا ہے کہ وہ تعمیر نو میں حصہ نہیں لیں گے۔ قذافی حکومت کے خاتمے کے بعد یہ ذمہ داری اقوام متحدہ اور یورپی یونین کو سونپی جائے گی۔
لبیبا آپریشن کے آغاز سے لے کر اب تک نیٹو کے جہاز 10 ہزار فضائی پروازیں کر چکے ہیں۔ دوسری طرف مغربی اور عرب ممالک پر مشتمل ایک ’رابطہ گروپ‘ لیبیا کی صورتحال پر آج جمعرات کو تیسری مرتبہ قطر میں ایک میٹینگ کر رہا ہے۔ امریکہ، برطانیہ، فرانس، اردن، کویت اور قطر پر مشتمل یہ گروپ لیبیا میں انسانی بحران کے ممکنہ حل کے بارے میں گفتگو کرے گا۔ اطلاعات کے مطابق اس اجلاس میں غالباﹰ روس، سعودی عرب اور مصر کو بھی بلایا جائے گا۔ اس اجلاس میں قذافی کے بعد لیبیا کی صورتحال پر غور کیا جائے گا۔
رپورٹ: امتیاز احمد
ادارت: کشور مصطفیٰ