لیبیا نئی خانہ جنگی کی دہلیز پر: سابق جنرل کی مسلح بغاوت
20 مئی 2014جنرل خلیفہ حفتر کی بغاوت سے لیبیا کے منقسم سیاسی حالات مزید ابتر ہو گئے ہیں۔ حفتر کا دعویٰ ہے کہ وہ لیبیا کو مسلمان انتہا پسندوں سے پاک کرنا چاہتے ہیں۔ اس وقت لیبیا کا مجموعی سیاسی منظر اسلامی انتہا پسندوں سے متاثر دکھائی دیتا ہے۔ حفتر کو یقینی طور پر خاصی مشکلات کا سامنا ہو سکتا ہے کیونکہ کئی مسلح جہادی گروپ اُن کے خلاف کھڑے ہونا شروع ہو گئے ہیں۔ اس ضمن میں ایسی اطلاعات موصول ہوئی ہیں کہ مسلح جہادی گروپوں نے اپنی مخالفانہ سوچ کو پسِ پشت ڈالتے ہوئے متحد ہونا شروع کر دیا ہے۔
اس وقت لیبیا میں ایک مضبوط مرکزی حکومت کی کمی ہے اور عبوری حکومت وزیر دفاع کی نگرانی میں قائم ہے۔ انہوں نے تنازعے کو ختم کرنے کے لیے تجویز کیا ہے کہ پارلیمنٹ فوری طور پر وزیر اعظم کا انتخاب کرے، سالانہ حکومتی بجٹ کو منظور کرے اور نئے پارلیمانی انتخابات کے لیے راہ ہموار کرتے ہوئے موجودہ پارلیمنٹ تحلیل کر دی جائے۔ پارلیمنٹ کی مدت بھی رواں برس کے اوائل میں ختم ہو چکی ہے۔ اسلام پسند اراکین کے حامی مسلسل احتجاج کے ذریعے پارلیمنٹ کی تحلیل کا مطالبہ کر رہے ہیں۔
لیبیا کے مشرقی حصے میں تعینات فوجی یونٹوں نے ملکی حالات کے تناظر میں حکومتی فوج کا ساتھ چھوڑنا شروع کر دیا ہے اور وہ بتدریج جنرل حفتر کے دستوں میں شامل ہو رہے ہیں۔ بن غازی میں ایلیٹ اسپیشل فورس کے ایک یونٹ کے کمانڈر نے بھی جنرل حفتر کی حمایت کا اعلان کر دیا ہے۔ جنرل حفتر کے مسلح دستوں کو نیشنل لیبیئن آرمی کہا جاتا ہے۔ لیبیا کے دوسرے بڑے شہر بن غازی میں اس مسلح آرمی کا مکمل کنٹرول بتایا جاتا ہے۔ بن غازی میں ایک ٹیلی وژن پر جنرل حفتر کے ایک کمانڈر وانس ابُو حمزہ نے بیان دیتے ہوئے کہا کہ اُن کے پاس لیبیا کے عوام کی قوت ہے اور وہ تمام دستے نابود کر دیے جائیں گے جو نیشنل آرمی کے ساتھ ٹکرانے کی تمنا رکھتے ہیں۔ جنرل حفتر کو فضائیہ کے یونٹوں کی بھی مدد حاصل ہے۔
پارلیمنٹ پر حفتر کے لشکریوں کے حملے کے بعد اسلام پسند رکن پارلیمنٹ نوری ابو صہمین نے اپنے مسلح حامیوں کو طرابلس میں پہرہ دینے کا حکم دیا ہے۔ ابو صہمین نے جنرل حفتر کے حملے کو اقتدار پر قبضے کی ایک کوشش اور جمہوریت کے راستے کو مسخ کرنا قرار دیا ہے۔ پارلیمنٹ کی حامی اسلامی ملیشیا کا تعلق لیبیا کے تیسرے بڑے شہر مصراتہ سے ہے اور وہاں سے بھی ٹینکوں اور توپخانے کے علاوہ سینکڑوں بڑی گاڑیاں مسلح افراد کو لے کر طرابلس پہنچنے کی تیاری میں ہیں۔
حفتر کے مخالفین کا کہنا ہے کہ وہ قذافی حکومت کے بعض اراکین کے اشارے پر عمل کرتے ہوئے اُسی انداز میں اقتدار پر قبضہ کرنا چاہتے ہیں، جس طرح مصر میں فوج نے اخوان المسلمون کی حکومت کو ختم کر کے کیا تھا۔ یہ ایک حقیقت ہے کہ قذافی کے زوال کے بعد سے لیبیا مسلسل اندرونی خلفشار کا شکار ہے۔ سیاسی عدم استحکام کے ساتھ ساتھ معاشی مسائل بھی گھمبیر ہو چکے ہیں۔ اسی باعث کئی علاقوں میں مسلح گروپ طاقت اختیار کر چکے ہیں۔
حفتر سن 1969میں شاہ ادریس کی حکومت کا خاتمہ کرتے وقت معمر القذافی کے ہمراہ تھے۔ وہ قذافی کے انتہائی قریبی رفقاء میں شمار کیے جاتے تھے۔ لیبیا اور چاڈ کی جنگ کے دوران حفتر کو دیگر 300 فوجیوں کے ہمراہ چاڈ کی فوج نے گرفتار کر لیا تھا۔ انہی جنگی حالات میں حفتر کو معمر القذافی نے چاڈ کے رحم و کرم پر چھوڑ دیا اور یہی بات اختلاف کا باعث بنی۔ بعد میں سن 1990 میں امریکی خفیہ ایجنسی سی آئی اے نے حفتر کی رہائی کے معاملات طے کیے۔ رہائی کے بعد انہیں امریکا منتقل کر دیا گیا تھا۔ وہ سن 1949 میں پیدا ہوئے تھے۔ قذافی کے زوال کے بعد قائم کی جانے والی متحدہ فوج میں انہیں لیفٹیننٹ جنرل کا رینک بھی دیا گیا تھا۔